مُلاّں پوُرکا سائیں پہلی قسط
ظفرجی
یہاں سے بہت دور ، راوی کنارے مُلاں پور نامی ایک گاؤں ہے- یہ گاؤں حکومتی غفلت سے ہر سال سیلاب کی نظر ہو جاتا ہے اور حکومتی غفلت سے دوبارہ آباد بھی ہو جاتا ہے- یہاں کے لوگ جانگلی کہلاتے ہیں اور بڑے مہمان نواز واقع ہوئے ہیں۔
میرا نام صلاح الدین ہے- پہلے دُنیا صلّو کہتی تھی ، اب سائیں صلّو- میرے مُرید راوی کے دونوں اطراف پھیلے ہوئے ہیں- میں اس قوم کا پِیر ہوں جو برسات میں ڈوب جاتی ہے ، گرمیوں میں سوکھ جاتی ہے ، اور جاڑوں میں ٹھٹھّر کے مر جاتی ہے- لیکن نعرہ پھر بھی حق سائیں کا ہی نعرہ لگاتی ہے۔
میں فقیر کیسے ہوا ، صلاح الدین سے سائیں صلّو کیسے بنا ، یہ ایک طویل قصّہ ہے- بس اتنا سمجھ لیجئے کہ مذھب اور معاشرہ دو مختلف اطراف میں چل رہے تھے ، اور میں نے تیسری راہ اختیار کی- یہی کہانی میں آج آپ کو سنانے لگا ہوں۔
میرے ماں باپ بچپن میں ہی دغا دے چکے تھے ، بس دور پار کے ایک چچا تھے جنہوں نے روکھی سوکھی کھلا کر کفالت کی- ھوش سنبھالا تو معلوم ہوا کہ کمہار ہوں اور جتنا بھی پڑھ لکھ لوں کمہار ہی رہونگا- چنانچہ اسکول میں وقت گنوانے کی بجائے بھانڈے بنانے والی آوی میں چچّا کا ہاتھ بٹانے لگا۔
جب گھڑے ، چاٹیاں ، اور کُنیّاں بنا بنا کر تھک گیا تو قصد کاروبار کا کیا- کمالیہ سے ٹوبہ جانیوالی لاریوں میں جس جس نے بھی سفر کیا ، صلّو کا سرمہ ضرور خریدا ہو گا- اس کا ایک سُرمچو دیدہ وروں کے چودہ طبق روشن کر دیتا تھا- فقیر تو کچھ روز یہ دھندا کر کے لوٹ آیا ، کمالیہ والے آج بھی آنکھوں کے "ککرے" صاف کرتے ہیں۔
گاؤں آکر "لکڑی کا کاروبار" شروع کیا- دن بھر کیکر کی مسکواکیں لئے "چِٹّی مسیت" کے سامنے کھڑا رہتا ، مگر دال کھانے والی قوم نے مسواک کا کیا کرنا تھا- کچھ روز مسجد کے سامنے ٹوپیاں ، تسبیحاں بھی سجائیں مگر مسیت میں پڑا "کھجّی ٹوپیوں والا ڈبّہ" کاروبار میں ہمیشہ رکاوٹ بنا رہا۔
سال بعد مسجد کے ساتھ والی اسلامی کیسٹوں کی دُکان خالی ہوئ تو میری قسمت نے یاوری کی۔
ملاں پور" میں 5 مساجد تھیں اور چھٹّی زیر تعمیر - ہر طرف چندے اور بندے جمع کرنے کا رجعان تھا- جمعہ کے دن یہاں کان پڑی آواز نہ سنائ دیتی- اس کے باوجود ہر مولوی کو گِلہ تھا کہ آوازِ حق ، خلقِ خُدا تک پہنچنے سے پہلے ہی فرقہء باطلہ کا لاؤڈ اسپیکر لے اُڑتا ہے۔
میری مذھبی تعلیم اگرچہ صفر تھی مگر اسلامی کیسٹوں کا کاروبار خوب راس آیا- باتونی شروع سے ہی تھا- کاروباری نزاکتوں کے پیش نظر مدنی رومال بھی اوڑھ لیا ، انداز بھی خطیبانہ سا ہو گیا اور مجمع لگانے میں لطف آنے لگا-
دور سے ہی گاہک کے فرقے کا اندازہ لگانا ، شیلف سے جھاڑ پھونک کر مطلوبہ کیسٹ اُٹھانا اور خطیب کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملانا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل بن گیا۔
اس روز اگر میں مولانا کمالوی کا نیا والیم لینے کمالیہ نہ جاتا ، اور رستے میں بس خراب نہ ہوتی تو "عالیہ" سے میری کبھی ملاقات نہ ہوتی- لیکن اس کا منطقی نتیجہ۔۔۔۔۔!!! یہ نکلتا کہ آج میں راوی کنارے بیٹھا یہ داستان نہ سنا رہا ہوتا۔
ہوا یوں کہ " اڈّہ موٹی کیکر" پر بس ایک چیخ مار کے رکی اور گھنٹہ بھر رکی رہی- ڈریور ، کنڈکٹر ، ہیلپر اور سواریاں مل جُل کر بس کی بیماری ڈھونڈنے لگے۔
اسی لمحے ایک ماہ رُخ ہمراہ ایک قبول رُخ امّاں کے ، بس میں سوار ہوئ اور کپڑوں سے بھری گٹھڑی میری گود میں ڈال دی- میں جو تین والی سیٹ پر پھیل کر بیٹھا ہوا تھا استغفار پڑھ کر سمٹا ، پھر جو پھیلنا شروع ہوا تو ماں بیٹی نے استغفار پڑھنی شروع کر دی۔
کمالیہ تک آنکھ مٹکّا جاری رہا- سلونی جھال پر میں نے ادھ پاؤ سیو بیر خریدے اور امّاں کے حضور نذر کئے- رجانہ آیا تو اماّں نے مرُنڈے کا ٹُکڑا پیش کیا- کچھ سفر کے بعد وہ لوگ " پنڈ دھوبیاں" اترنے لگے تو پیچھے پیچھے میں بھی اتر گیا۔
امّاں نے پوچھا پُتّر کدھر جانا ہے۔
میں نے کہا امّاں بزرگوں کی خدمت میرا شعار ہے اور اسی میں دوجہاں کی کامیابی ہے- پھر یہ کہانی گھڑی کہ ایک پرانے بیلی سے ملاقات کےلئے دھوبیاں کی نیت باندھی تھی- راستہ معلوم نہیں- خدا نے سبب کیا ، صد شکر کہ قافلہ میسر آیا۔
یوں میں گٹھڑی سر پہ اٹھائے برابر دو کلومیٹر چلتا رہا- وہ لوگ گاؤں کو چیرتے ہوئے اپنے محلہ کے گھاٹ پر جا اُترے- ماہ رُخ نے کپڑوں کی گٹھڑی میرے سر سے اتاری مگر پیار والی پنڈ ہمیشہ کےلیے رکھ دی۔
چنانچہ میری دکان کو تالہ پڑا- ہر روز مونہہ اندھیرے مشکی صابن سے نہا کر ، تیل سرسوں سر پر جما کر ، اور خوُد پہ عطر پھلیل چھڑکا کر سیدھا " پنڈ دھوبیاں" جا پہنچتا- مُلاں پور والے بھی حیران تھے کہ "دھوبیاں" میں کس خطیب کا ظہور ہوا ہے جو صلّو روز بھاگا جاتا ہے- کسی کو میرے عشق کی خبر نہ تھی، سوائے صادق سیکلوں والے کے۔
اڈے پر اس کی سائیکلوں کی دکان تھی- یہی دکان میرا پکّا "ٹھیّا" بن گئ- میں سارا دن صادق کے پاس بیٹھا مکھیاں مارتا رہتا-ایک آنکھ سے کانا صادق دور اندیش بندہ تھا- اس نے میری حالتِ زار پر رحم کھایا اور مذکورہ گھرانے میں میرے رشتے کا پیغام بھجوا دیا- وہ لوگ بھی شاید کسی اچھّے جوائ کے انتظار میں تھے- ایک مبارک ساعت میں "منگیوا" ہوا- دوسرے ہی روز چند جاننے والوں میں چھوارے بانٹے اور " پرنیوا" ہو گیا۔
دلھن لیکر گاؤں آیا تو کئ فتنے ایک ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے- پہلے چچّا نے جائداد سے عاق کیا کہ ذات کا کمہار اور دھوبیوں سے رشتے- پھر مولوی نزیر بھاگا آیا کہ نکاح کس نے پڑھایا ہے ؟؟ میں نے کہا پِیر حسین بخش جنڈاں والی سرکار نے- مولوی کو تو بریک لگ گئ لیکن چچا نے جائیداد سے ہمیشہ کےلئے محروم کر دیا- میں نے بھی لعنت بھیجی کہ مٹی کے بھانڈے بنانے والی آوی اور ایک مریل کھوتے کا میں نے کیا کرنا تھا۔
مسجد سے ملحقہ ایک کوارٹر کرائے پر خالی تھا- مولوی صاحب نے عنایتاً مجھے بخش دیا- دکان کا تالہ کھُل گیا- یوں دن عید اور رات شبرات کی طرح گزرنے لگے- میرا ایک پاؤں کیسٹوں والی دکان میں ہوتا اور دوسرا زنان خانے میں- عالیہ بھی جی جان سے میری خدمت کرتی- اور یوں زندگی بڑے مزے سے کٹنے لگی۔
پانچ چھ ماہ بعد ایک روز میں کیسٹوں کا نیا اسٹاک لینے کمالیہ گیا تو واپسی پر تاخیر ہو گئ- رات گئے میں ملاں پور پہنچا- ابھی گھر سے کچھ دور ہی تھا کہ مجھے ایک انسانی ھیولہ دکھائ دیا- میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہیولہ میرے گھر سے باہر نکلا اور اندھیرے میں غائب ہو گیا۔
میں وہیں ٹھٹھک کر رک گیا۔
Comments
Post a Comment