مُلاّں پوُرکا سائیں دوسری قسط
ظفرجی
میں دبے پاؤں چلتا ہوا گھر کے دروازے تک پہنچا اور زور سے کنڈی کھٹکائ- کافی دیر بعد دروازہ کھُلا-
دروازہ عالیہ نے ہی کھولا- مجھے دیکھ کر وہ کُچھ پریشان ہوئ پھر سر جھکائے واپس چل دی- میری غیرت جاگ اٹھی اور میں "عاشق" سے ایک دم شوھر بن گیا- ایک غیرت مند شوھر-
میں نے غُصّے میں کانپتے ہوئے آواز دی:
"کون آیا تھا یہاں --- ؟؟"
اس نے پلٹ کر دیکھا پھر سراسیمگی سے میرے ہیولے کو گھورنے لگی- میں نے کہا " بولو بھی -- کون تھا یہ -- جو ابھی ابھی -- اس بوُہے سے باہر نکلا ہے؟"
دونوں ہاتھوں سے اوڑھنی سنبھالتے ہوئے بمشکل اس کے ہونٹ ہِلے :
" کک .... کون -- ؟؟ "
" واہ -- سرے سے ہی مُکر گئ توُ-؟ " میں نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہا- " خُود دیکھا ہے میں نے -- اپنی اِن اکھّوں سے -- ایک بندہ یہاں سے نکلا -- اس بوُہے سے -- چور تھا -- ڈاکو تھا -- لٹیرا تھا --- یا بھوُت --!!! "
" بتا دیا ناں تجھے -- کوئ نئیں آیا یہاں " وہ روہانسی ہو کر بولی-
میں اس پہ ایک غصیلی نظر ڈالتا ہوا گھر کے اندر آ گیا- پھر کمرے میں جا کر بلب روشن کیا اور ماحول کا جائزہ لینے لگا- سب کچھ درست حالت میں تھا اور گھر میں کسی اجنبی کی آمد کے کوئ آثار نہ تھے- تناؤ سے میرا دماغ پھٹنے لگا- مجھے اپنی عقل اور یاداشت پر شک ہونے لگا-
میں نے کہا عالی دیکھو- جو کچھ بھی ہے سچ سچ بتا دے- اگر کوئ چور تھا -- ڈاکو یا کوئ بدمعاش تو ابھی مسیت میں اعلان کرا دیتے ہیں -- میں نے خود ایک اجنبی کو یہاں ، اس بوھے سے نکلتے دیکھا ہے-
اس بار وہ تنک کر بولی:
" اپنا علاج کرا- دوسروں کو سرمہ بیچتے بیچتے تیری آنکھوں میں بھی کُکرے اتر آئے ہیں- کوئ نئیں آیا یہاں"
مجھے اس بات نے بھڑکا دیا- پھر ہمارے بیچ لڑائ شروع ہو گئ- مجھ پر وحشت سوار ہوئ اور میں نے اسی کے دوپٹّے سے اس کا گلہ دباتے ہوئے کہا:
" سچ سچ بتا عالی -- کون تھا وہ -- ورنہ ٹوٹے کر کے یہیں ویہڑے میں دفنا دونگا"
اس نے گھُٹّی گھُٹّی آواز میں کہا:
"بھبھ .... بھائ !!!"
میں نے اس کا گلہ چھوڑ دیا- پھر ایک گہری سانس لے کر کہا:
" اچھا -- تو اب توُ نے بھائ بھی بنا لئے ہیں -- !!! "
میں جانتا تھا کہ عالیہ کا کوئ بھائ نہیں ہے- وہ محض بہانہ کر رہی ہے- مجھے دھوکا دے رہی ہے-
میں نے غُصّے سے زمین پہ تھوُکا پھر منجا گھسیٹتا ہوا ویہڑے میں لے گیا اور تکیہ گود میں دھر کے بیٹھ گیا- کچھ ہی دیر میں وہ کپکپاتے ہاتھوں سے پانی کا گلاس لیکر آئ- میں نے گلاس جھپٹ کر دور پھینک دیا اور کہا:
" نہیں پیتا میں تیرے ہاتھ کا پانی- نفرت ہے مجھے تجھ سے- جب تک تو مجھے یہ بتائے گی کہ یہاں کون آیا تھا ؟ کہاں سے آیا تھا ؟ کیا لینے آیا تھا قسم عنایت شاہ سرکار کی تجھ سے کلام نہ کروں گا-
" بھائ تھا میرا --- " وہ ہچکیاں لیتے ہوئے بولی-
آخر کون ہے یہ بھائ ؟؟ تیرا تو کوئ بھائ بہن نہیں؟ کہاں سے پیدا ہو گیا یہ بھائ -- ؟؟
وہ خاموشی سے اندر کمرے میں چلی گئ- میں دل پہ پتھر کی سِل رکھ کر ویہڑے میں لیٹ گیا- میرا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا-
اگلے روز میں نے عالیہ سے کوئ بات نہ کی- ہمارے بیچ ایک انجانی دیوار حائل ہو چکی تھی- مجھے اس میں ہزارہا خامیاں دکھائ دینے لگیں- وہ بھی کسی قدر بے رُخی برت رہی تھی- میں نے پورا دن دکان میں گزار دیا- شام کو محمد دین نائ سے بہانہ کیا کہ ٹبری بیمار ہے ، ایک بندے کا کھانا بھیج دے- وہ غریب دو روٹیاں لے آیا- بھوک تو ویسے اڑ چکی تھی زھر مار کر کے گھر آ گیا اور منجا گھسیٹ کے ویہڑے میں ہی سو گیا-
وہ رات میں نے جاگتے ہوئے گزاری- عالیہ سے بات چیت کا کوئ فائدہ نہ تھا- ویسے بھی جتنا الاؤ نفرت کا میرے اندر جل رہا تھا اتنا ہی غصّہ وہ بھی پالے بیٹھی تھی- میں نے فیصلہ کیا کہ صبح دھوبیاں جا کر صادق سے بات کروں گا- اسی نے یہ رشتہ کرایا تھا- لیکن اس کی نوبت ہی نہ آ سکی-
صبح سویرے وہ دھماکہ ہو ہی گیا جس کے خطرات کل سے منڈلا رہے تھے- وہ چائے لیکر آئ تو میں نے گرم چائے اسی کے اوپر انڈیل دی- اس نے غُصّے میں مجھے " ذلیل ، کُتّا ، کمینہ ، کُبھار دی اولاد" کا القاب عطاء کر دئے- میں نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ پہلے دھوبیوں کی سات پشتوں کو دھویا پھر طلاق طلاق طلاق کے آٹھ دس فائر کر دیے-
وہ خاموشی سے آنسو چھپاتی کمرے میں چلی گئ- میں اٹھ کر دکان پہ آ گیا- مجھے اپنے فیصلے پہ کوئ افسوس نہ تھا- جب شک کا کانٹا دل میں چُبھا ہو ، اور آپ کی عزیز ترین ہستی اسے نکالنے کی قدرت رکھنے کے باوجود مزید گہرا کر رہی ہو تو کیسی گرہستی کہاں کا وسیبا-
شام کو گھر آیا تو عالیہ جا چکی تھی-
رات کو جب یہ فقیر چارپائ پر گرا تو غُصہ کی بجائے ندامت گھیرنے لگی- احساس کے کوئلے دہکے تو دل و دماغ پر جمی کبرونخوت کی برف پگھلنے لگی- رفاقتوں کے دیپ بجھے تو تنہائ کے اندھیرے ڈسنے لگے اور میں زندگی میں در آئ شبِ تنہائ میں بری طرح بھٹکنے لگا-
پوری رات افسوس میں گزری کہ آخر عالیہ نے مجھ سے کیوں بے وفائ کی- صادق سیکلوں والے کا لگایا ہوا یہ پنکچر زیادہ دیر کیوں نہ ٹھہر سکا اور چھ ماہ بعد ہی گرھستی کا ٹائر کیوں پھٹ گیا-
میں "ہائے بے وفا " کہتا ہوا بستر پر گرا اور رونے لگا- شب خوابی کا مارا تو تھا ہی ، روتے بسورتے جانے کب آنکھ لگ گئ-
کچھ دیر بعد مجھے یوں لگا جیسے دروازہ زور زور سے پیٹا جا رہا ہو- میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا- آنکھیں ملتے ہوئے باہر جا کر دیکھا تو سامنے سجی سنوری عالیہ کھڑی تھی-
میرے جزبات کا سمندر بے قابو ہونے لگا- میں نے کہا " عالیہ یہ سب خواب تھا ناں ؟؟ بولو -- بولو -- ہمارے بیچ طلاق نہیں ہوئ ناں ؟؟ اس سے پہلے کہ وہ کوئ جواب دیتی اچانک کہیں سے صادق سائیکلوں والا نمودار ہوا اور مجھے زور کا دھکا دے دیا-
میں لڑھکتا ہوا جیسے کسی گہری کھائ میں جا گرا --- !!!
آنکھ کھلی تو بستر سے نیچے پڑا تھا اور دروازہ شدّت سے پیٹا جا رہا تھا-
Comments
Post a Comment