Khan Se Jurri Yadain, Episode 2, By Iftikhar Iffi Sahab | PM Pakistan Imran Khan | Memories Related to Imran Khan By Iftikhar Iffi Sahab





مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ ولڈ کپ سے پہلے پاکستانی ٹیم کا کیمپ قذافی اسٹیڈیم میں لگا تھا ۔ یہ 1992 کی بات ہے ۔
میں اور میرا لنگوٹیا جاوید شاہ روزانہ قذافی اسٹیڈیم پاکستانی ٹیم کی پریکٹس دیکھنے جایا کرتے تھے ۔ ایک روز ہم پریکٹس دیکھ رہے تھے جنگلے کے اندر گراونڈ میں کھلاڑی پریکٹس کم اور باتوں میں زیادہ مشغول تھے اسی اثنا میں عمران خان آگیا سب باتیں چھوڑ پریکٹس میں لگ گئے ۔ ہم روز اس جگہ بیٹھتے جہاں دس فٹ کے فاصلے پر جنگلے کے اندر کھلاڑی اپنی کٹ جوتے جرابیں بدلا کرتے اس طرح ہمیں اپنے من پسند کھلاڑیوں کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع مل جاتا ۔ خیر اس روز عمران خان بھاگتا ہوا ہمارے قریب آیا کٹ پہنی اور بھاگتا ہوا پچ پر گیا اور بولنگ شروع کر دی یہ وہ وقت تھا جب کہا جارہا تھا کہ جاوید میاں داد ختم ھو چکا ہے۔
افریقہ اور انگلینڈ کی ٹیمیں فیورٹ ہیں۔ لوگ جاوید میاں داد بارے کہتے کہ اب اسے ٹیم سے نکال دینا چاہئے مگر میں حیران تھا کہ خان دور سے بھاگتا ہوا آتا بال کرتا اور جاوید میاں داد زور دار ہٹ لگا کر گیند کو باؤنڈری لائن سے باہر پھینک دیتا اور ہر بال پر خان تالی بجا کر جاوید میاں داد کو داد دیتا ۔ ان دنوں میں نے غور کیا کہ عمران خان سلیم ملک جاوید میاں داد سے بہت کھل کر باتیں کرتا اور وسیم اکرم سے محتاط رویہ اختیار کرتا ۔ خان ہر بال پر لڑکوں کو ٹپس دیتا ۔ خان اپنا بولنگ سپیل کروا کر ہمارے قریب آیا وہاں دو بینچ پڑے تھے دونوں بینچوں کی پشت پر دو گورے گورے چٹے نوجوان بیٹھے مستقل باتیں کررہے تھے ۔ خان کے قریب آنے پر میں نے باہر سے اونچی آواز میں سلام کیا خان جو اپنی ٹی شرٹ بدل چکا تھا اور جرابیں بدل رہا تھا نے ایک نظر مجھے دیکھا اور نظر انداز کرتے ہوئے پینچوں کی پشت پر بیٹھے ہوئے ایک نوجوان کو مخاطب کر کے کہا " کیوں وقت ضائع کررہے ھو وقار پریکٹس کیوں نہیں کررہے؟
وقار نامی گورے چٹے نوجوان نے "جی اچھا" کہا اور عمران خان بیٹنگ کرنے چلا گیا اور وقار نامی چٹا نوجوان اسی جگہ بیٹھا باتوں میں مشغول رہا ۔ عمران خان زبردست شارٹس کھیل رہا تھا ۔ کہ جاوید میاں داد نے بولنگ شروع کر دی
پہلی چار گیندوں پر خان نے باونڈریز ماریں مگر اگلی گیند پر ایل بی ڈبلیو ھوگیا اور چھٹی گیند پر میاں داد نے خان کی کلی اڑا دی شاید وہ لوگ شغل کررہے تھے۔
خان سپیل کھیل کر واپس آیا وہ دونوں گورے چٹے نوجوان حسب ثابق بینچوں کی پشت پر بیٹھے باتیں بگھار رہے تھے خان نے دیکھا تو اسکا میٹر شارٹ ھوگیا ۔ ہم نے سن تو رکھا تھا کہ عمران خان بہت غصے والا ہے اس دن ثبوت بھی مل گیا ۔ خان نے اس وقار نامی گورے چٹے نوجوان کی بہت بے عزتی کی ۔ تم وقت برباد کر رہے ھو ۔ کوئی شرم ہے تم میں ۔ یہاں باتیں کرنے آئے ھو
سب سے بڑا ٹورنامنٹ ہے اور تمہیں باتوں سے فرصت نہیں ۔ محنت کے بغیر کچھ نہیں ملتا یاد رکھو ہمیں یہ ولڈ کپ جیتنا ہے "
میں نے کچھ باتیں ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے حذف کردی ہیں ۔ اس کے بعد وہ وقار نامی نوجوان پچ پر گیا اور اوپر تلے تین بار ایک کھلاڑی کو آوٹ کیا۔ ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ وہ وقار یونس تھا ۔
خیر خان ولڈ کپ جیت کر شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے لئے چندا مانگ رہا تھا خان نے دس روپے والی ٹکٹس چھپوائیں تھیں جو سکول کے بچوں کو بیچ کر پیسے جمع کئے جاتے تھے ۔ اور طریقوں کے علاوہ یہ بھی ایک طریقہ تھا فنڈ ریزینگ 
کا۔


ہم پوری قوم کی طرح خان کے دیوانے ھو چکے تھے ۔ ہم نے جاوید شاہ سے کہا کہ ہم شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر میں خان کی مدد کرنا چاہتے ہیں ۔ جاوید نے کہا پھر چلو عمران خان کے گھر چلتے ہیں ۔
بچپن میں ہم جب زمان پارک سے گزرتے تھے تو ابا لب نہر سائیکل روک کر ہمیں بتایا کرتے کہ وہ دیکھو وہ پاکستانی کھلاڑی عمران خان کا گھر ہے۔
عمران خان سے ایک اور طرح کا انس بھی تھا اور وہ اس وقت پیدا ہوا جب ابا نے ہمیں بتایا کہ ہمارے چھوٹے بھائی عمران احمد عثمانی کا نام ابا نے عمران خان کے نام پر رکھا تھا ۔ عمران خان کو اللہ نے ولڈ کپ جیتنے سے پہلے وہ عزت وہ شہرت عطا کی تھی کہ لوگ اپنے بچوں کے نام عمران خان کے نام پر رکھا کرتے تھے ۔
خیر ہم زمان پارک پہنچے گیٹ پر موجود خادم کے ہاتھ اندر پیغام بھیجا کہ ہم شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر میں مدد کرنے آئے ہیں ۔ کچھ دیر بعد وہ خادم ہمیں اندر لے گیا ۔ لان میں خان سفید شلوار قمیض زیب تن کئے پشاوری چپل پہنے لوہے کی کرسی پر بیٹھا تھا ۔ میں نے سلام کیا خان سے ہاتھ ملایا
خان نے پوچھا کیا مدد کرو گے؟
میں نے کہا میں آپکے ٹکٹ بیچونگا ۔ خان نے ہم سے پوچھا کہاں سے آئے ھو ہم نے کہا سنت نگر سے اور جھٹ سے نہرو پارک کی پچ کے افتتاح والی بات سنا ڈالی ۔ خان نے آواز دی " علیمہ "
خان نے کہا انکو دو کاپیاں دے دو اور اٹھ کر اندر چلا گیا ۔
علیمہ نامی لڑکی نے ہمارا نام پتہ لکھا اور دو کاپیاں ہمیں تھما دیں ۔ اور ہم شوکت خانم تعمیر کرنے نکل پڑے ۔ مگر حیرانی کی بات یہ تھی کہ جاوید شاہ اور ہم سے کوئی ٹکٹ خریدنے کو تیار نہیں تھا ۔ بہت کوششوں کے بعد آٹھ دس ٹکٹیں بیچ پائے تھے ۔ جاوید شاہ نے طریقہ نکالا اور ساری ٹکٹیں اپنے رشتہ داروں کو بیچ ڈالیں ۔ ہمیں پتہ چلا تو ہم نے بھی پچاس ٹکٹیں خاندان اور محلے والوں کو بیچ کر باقی چالیس ٹکٹیں ابا کے سر منڈ دیں ۔ ابا نے جانے کیسے ہمیں پیسے دیئے اور ہم نے پیسے اور کاپیاں عمران خان کے ہاتھ میں جا تھمائیں ۔ خان نے ہمیں شاباش دی اور پیسے علیمہ کو دے دیئے ۔ ہم نے مذید چندا جمع کرنے سے توبہ کرلی اور خان کی مدد کا نیا راستہ اختیار کیا کہ عمران خان لاھور میں جہاں جہاں چندہ مانگنے جاتا ہم وہاں پہنچ جاتے اور عمران خان زندہ باد کے نعرے لگاتے ۔
میں نے اپنی آنکھوں سے وہ مناظر دیکھے ہیں کہ لاھور کے لوگو نے عمران خان کو نہ صرف دل کھول کر چندہ دیا بلکہ عورتوں نے اپنے کانوں لی بالیاں کنگن اور گلے کے ہار اتار اتار کر خان کی جھولی میں ڈال دیئے۔ ان ہی دنوں کی بات ہے ایک غریب عورت نے اپنی بیٹی کا سارا جہیز عمران خان کو چندہ میں دے ڈالا تھا ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کچھ لوگ عمران خان کی بہت تعریف کیا کرتے تھے مگر زیادہ لوگ عمران خان کو ڈرامہ قرار دیتے ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ لوٹ کر کھا جائے گا ۔ مگر خان نے اپنی روش نہ چھوڑی ۔
لوگو کے اختلاف کی ایک بری وجہ یہ تھی کہ لوگ زیادہ تر نزلہ بخار کا شکار ھوا کرتے تھے ۔ زیادہ سے زیادہ کسی کو بڑی بیماری ھوتی تو ٹی بی ھوتی تھی جس کا علاج گلاب دیوی ہسپتال سے ھو جاتا تھا ۔ اس لئے لوگ کینسر کو سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے ۔ میں آپ کو گلی محلے کی سوچ بتا رہا ہوں ۔
ان دنوں فلموں میں بھی کینسر کی انٹری نہیں ھوئی تھی۔
رام بابو کو ٹی بی ھوا کرتی تھی ۔ رام بابو ہیروئن کو خود سے دور کرنے کے لئے کسی کلب ڈانسر کو گھر بلاتے اس سے جھوٹ موٹ کی محبت کا اظہار کرتے اور عین وقت پر رام بابو کا جگری دوست ہیروئن کو لے آتا ہیروئن یہ منظر دیکھ کر روتی ہوئی رام بابو کی زندگی سے نکل جاتی ۔ اور رام بابو فلم کے آخری سین میں خون کی الٹی کرنے کے بعد بابو نوشائے کہتے ھوئے پرلوک سدھار جاتے ۔
کینسر کو گلبرگ اور ماڈل ٹاؤن کی بیماری تصور کیا جاتا ۔
مگر خان دھن کا پکا رہا ۔ اللہ نے اسے استقامت عطا کی ۔ اور شوکت خانم ہسپتال بن 
گیا ۔


تو محلے کے دانشوروں نے پرچار شروع کر دیا کہ عمران خان نے ہسپتال کے نام پر ایک تجربہ گاہ بنائی ہے جہاں باہر کےممالک اپنی اپنی بنائی ہوئی کینسر کی دوائیاں آزمائیں گے لوگ ہمارے مرینگے اور فائدہ غیر ممالک کا ھوگا۔
آپس کی بات ہے ہمیں بھی کینسر جیسی موذی بیماری بارے کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا۔ کیونکہ ہم نے 1995 تک کسی کو کینسر سے مرتے نہیں دیکھا تھا ۔ کبھی کبھی ہمیں بھی لگتا کہ خان نے بلا وجہ کینسر ہسپتال بنایا ہے ۔
پہلی بار کینسر جیسے مہلک مرض سے آشنائی اس وقت ھوئی جب ہم نے شوبز میں قدم رکھا اور ہماری دوستی اداکار توقیر ناصر سے ھوئی ۔ ھوا یوں کہ توقیر ناصر کی والدہ کے گردے سے ایک بڑے سائز کی رسولی آپریشن کے ذریعے نکالی گئی اور بائیوپسی کروانے پر معلوم ہوا کہ ان کو کینسر ہے۔ آپریشن پرائویٹ ہسپتال میں ھوا تھا اور اب ان کو علاج درکار تھا توقیر ناصر بےچارے پیسہ پانی کی طرح بہا رہے تھے ۔ بہت پریشان تھے ۔ میں ان کے ساتھ تھا اور ہر ممکن مدد کررہا تھا ۔ جب توقیر ناصر کی والدہ کی طبیعت بہت بگڑ گئی تو ڈاکٹرز نے شوکت خانم داخل کروانے کو کہا ۔ توقیر ناصر نے ہماری ڈیوٹی لگائی کہ تم جاو اور عمران خان سے بات کرو ان کو میرا کہنا اور سفارش کروا دو ۔ ہم توقیر ناصر کی والدہ کی رپورٹس لیکر زمان پارک جا دھمکے ۔ خان لان میں بیٹھا تھا کچھ نوجوان پاس بیٹھے تھے ۔ ہم نے ہاتھ ملانے کے بعد پہلے سنت نگر پچ کے افتتاح والی بات بتائی پھر چندہ کی ٹکٹیں بیچنے والا احسان جتایا اور پھر توقیر ناصر کی والدہ کی رپورٹس دکھا کر شوکت خانم میں ایڈمٹ کرنے کی درخواست کی ۔
ہمیں پوری امید تھی کہ عمران خان ہماری کارگزاریوں اور صدارتی تمغہ یافتہ توقیر ناصر کی شہرت کے زیر اثر ابھی فون کرے گا اور توقیر ناصر کی والدہ کا داخلہ ھو جائے گا ۔ مگر خان نے پوری بات سن کر کہا توقیر ناصر کو میں جانتا ہوں مگر میں تمہاری مدد نہیں کر سکتا ۔ کیونکہ شوکت خانم کی ایک ٹیم ہے وہ فیصلہ کرتی ہے کہ کس کو داخلہ دینا ہے کس کو نہیں ۔ ہم نے بحث کرنا چاہی تو عمران خان نے ہمیں سمجھایا کہ وہ کسی صورت ہسپتال کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرے گا ۔

عمران خان کہہ رہا تھا کہ شوکت خانم ہسپتال میں جتنے بستر ہیں پاکستان میں کینسر کے مریضوں کی تعداد اس سے 100 گنا زیادہ ہے ۔ شوکت خانم ہسپتال پہلی اسٹیج کے مریضوں کو جن کا علاج ممکن ہے ان میں سے بھی کچھ فیصد کو آکاموڈیٹ کرپاتا ہے۔


میں غصے میں زمان پارک سے نکل آیا اور سوچ رہا تھا کہ عمران خان جھوٹا ہے ۔ اتنے مریض تو ھو ہی نہیں سکتے ۔ ہم نے پہلا کیس دیکھا ہے کینسر کا اور یہ اتنی بڑی تعداد بتا رہا ہے۔ اور یہ کیسے ھوسکتا ہے کہ ہسپتال بنانے والا سفارش نہ کرسکے؟
ہمیں عمران خان کی سچائی اور غیر جانبداری سمجھ آبھی نہیں سکتی تھی کیونکہ ہم ان دنوں برسراقتدار جماعت میں تھے اور ہماری ایک کال پر ہم ایس ایچ او سے اچکوں موالیوں کو چھڑا لیا کرتے تھے ۔ ثابق گورنر پنجاب سے کال کروا کے آئی جی پنجاب سے ان کے آفس میں جاکر پروٹوکول سے ملتے تھے اور حلقہ کے چھوٹے موٹے جھگڑوں کو سلجھاتے اور دوستوں میں بیٹھکر ڈینگیں مارا کرتے ۔
حلقہ بگوش اخلاقیات تو ہم بعد میں ھوئے ۔
مگر سفارش دوھونس زبردستی اور جبر کے اس موسم میں ہمیں خان کی اصولی بات نہایت بے اصولی لگی۔






Comments