Zafar Gee's Qissa Hatim Tai Episode 1

قصّہ حاتم طائی  قسط 1

ظفر جی



قصّہ مشہور ہے کہ یہاں سے ہزاروں میل دور رینالہ خورد میں ایک سخی رہتا تھا جو اپنے تئیں حاتم کہلوانا پسند کرتا تھا- لوگ اسے دیسی حاتم طائی کہتے تھے- شہرہ اس کی سخاوت کا دور دور تک پھیلا ہوا تھا- بے شمار حاذق حکیم طبیب اور جراح اس کی زیارت کو کھنچے چلے آتےاور نبض دیکھتے ہی پکار اٹھتے کہ واللہ یہی سب سے اصلی ، خالص اور دیسی حاتم طائی ہے۔

وہ مردِ انمول ، جّری اس قدر تھا کہ کبوتروں کے غول کو ہلکی سی ہش کرکے اڑا دیتا- بھاگتے گھوڑے پر جست لگا کر بیٹھتا اور گھوڑے سمیت نیچے آن گرتا- سخی اس قبیل کا تھا کہ ہزارہا درویش صبح شام اس کا دسترخوان اجاڑتے اور اور بِل چکا کر اٹھتے۔

حاتم نے ایک شاندار محل بنوا رکھّا تھا جس کے سات دروازے تھے- ایک دروازہ اس نے خود بنوایا تھا باقی بارشوں اور سیلابوں نے بنا رکھّے تھے- چور اچکے ، جیب کترے ، اٹھائ گیرے ، صبح خیزے ، دغاباز ، نشئی ، جہاز جس دروازے سے چاہتے مونہہ اٹھائے چلے آتے۔

لوٹا ، حُقّہ، عصاء، دری، تکیہ ، شیروانی کھُسّے سب اٹھ گیا مگر حاتم کے ماتھے پہ بل تک نہ آیا- رفتہ رفتہ شہر کے بھکاری امیر ہوتے چلے گئے اور حاتم مقروض- لے دے کے گھر میں ایک چکّی ہی رہ گئی- آٹا پیسنے والی یہ چکّی اسے مرحوم باپ کے ترکے میں ملی تھی۔

ایک روز حاتم بازار میں گشت کر رہا تھا کہ نگاہ ایک پِیرِ مرد پر پڑی جو صدا لگاتا تھا:

لوگو کئی یوم سے بیکار ہوں-غریب الوطن ہوں اور روٹی کا ایک لقمہ شکم میں نہیں گیا- گھر میں بیوی بچّے بھوک سے بلکتے ہیں- اگر ایک روٹی کے موافق کچھ زرِ نقد عطا ہو جاوے تو عمر بھر بارِ احسان تلے دبا رہونگا۔

اس کی فریاد سن کر حاتم کا دِل پسیج گیا اور وہ بولا:

یا شیخ میرے ساتھ چلئے ، غریب خانے پہ اللہ کا دیا سب کچھ موجود ہے- دولت کے انبار ہیں اور اڑانے والا کوئی نہیں- غلمان طعام لوازمہ کے طباق اٹھائے پھرتے ہیں اور کھانے والا کوئی نہیں۔

وہ پِیر مرد بنا لگاوٹ کے بولا:

ہفت اقلیم میں ایسی ضیافت سوائے حاتم کے کسی کو روا نہیں ، جو اوکاڑہ سے سات کوس آگے رینالہ میں رہتا ہے اور اس کی ایک تائی بھی ہے۔

حاتم نے کہا:

اگرعقل پہ بار نہ ہو تو یقین فرما لیجئے کہ وہ خسروئے یگانہ، نوشیروانِ زمانہ آپ کے سامنے ہی کھڑا ہے ، اجازت ہو تو ایک بسکُٹ ٹک کا پیش کروں؟

غرض کہ حاتم نے بڑی عزّت و توقیر سے اس پیرِ مرد کو اپنے گھوڑے پر بٹھایا اور کشاں کشاں اپنے عشرت کدے تک لے آیا۔

محل کے دروازے پر پہنچ کر حاتم نے کہا۔

اے عزیز ، گھوڑا ہنہناتا اچھّا لگتا ہے اور مرد کماتا- یہ اس غریب کا عشرت کدہ ہے- سامنے اس کے بیری کے کچھ درخت ہیں- اگر آپ ان کی چھنگائی فرما دیویں تو بندہ شکر گزار ہو گا- گھر میں آٹے کی ایک چکّی ہے ، اس کی صفائی بھی کروانی ہے- شہزادے کو گھوڑی پہ بٹھا کے مکتبِ قریب چھوڑ کر آنا ہے ، اور اگر طبیعت پہ بوجھ نہ ہو تو بکریوں کےلئے نصف گٹھڑی چارہ بھی کاٹ کے لانا ہے- بدلے میں اس کارِ خیر کے یہ فقیر آپ کو سولہ صد اشرفیاں و یَک بوری آٹا ماہانہ عطاء کیا کرے گا- صبح شام ضیافت آپ کی دال مونگ مسُور شاھی کے ساتھ ہو گی اور دوشنبے کو ہم شوربہ بینگن کا بھی بناتے ہیں۔

یہ گفتگو جاری تھی کہ زنان خانے سے آواز آئی۔

سُنو اے آٹے کے دشمن ..!!  اگر غلام لے ہی آئے ہو تو باغ میں گوڈی بھی کروا دو اور باہر سڑک پہ پڑی اینٹیں بھی چھت پہ رکھوا دو- کیوں ایک غریب کو مفت کی چاٹ لگاتے ہو ...!!

یہ سن کر اس فقیر کی آنکھیں بھر آئیں اور وہ حاتم کے قدموں میں گر کر بولا:

اے سخی- مجھے معاف کر دے- میرے باپ کی بھی توبہ اگر آئندہ آپ کے سامنے ہاتھ پھیلاؤں- ایک تو دیہاڑی برباد ہوئی اوپر سے خواری ہاتھ آئی- مجھے واپس بازار چھوڑ آئیے- روپیہ سولہ صد میں اس مشقت کے بغیر بھی کما لوں گا۔

حاتم کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں- اس نے کہا:

اے درویش ، کیا خیال ہے تیرا اس شخص کے بارے میں جو یہ سب بار اکیلے ہی اٹھاتا ہے اور بدلے میں جسے مستورِ خانہ کی جھڑکیوں کے سوا کچھ میّسر نہیں؟

فقیر بولا:

آقا یقیناً وہ شخص بخشا بخشایا شوہر ہی ہو سکتا ہے- فقیر بننے سے پہلے میں بھی ایک شوھر ہی تھا۔

حاتم اس جواب سے بہت خوش ہوا اور فقیر کو سو اشرفی عطاء کر کے دوبارہ گھوڑی پہ بٹھایا اور واپس بازار چھوڑ آیا۔

چکّی کی آمدن کم ہوئی تو ایک روز حاتم نے یونہی شہر میں ڈھنڈورا پٹوا دیا کہ:

لوگو مبارک ہو ، تبدیلی آ گئی ہے- آج کے بعد جو شخص ہمارے پاس جتنے من گندم لائے گا ، اتنے من ہی آٹا پائے گا:

یہ اعلان کارگر ثابت ہوا اور ایک جمِّ غفیر گندم کی بوریاں اٹھائے اس کے دروازے پہ آن کھڑا ہوا- حاتم نے پسائی شروع کی مگر چکّی سے نکلنے والا آٹا ہر بار گندم کی مقدار سےکم ہی نکلا- حاتم گھر کے کنستر سے آٹاچرا چرا کر گاہکوں کے تھیلے بھرنے لگا- کئی روز تک یہ سخاوت جاری رہی- بالاخر ایک روز مستورِ خانہ نے خالی کنستر حاتم کے سر پہ مارا اور دھکے دیکر گھر سے نکال دیا۔

یوں حاتم یہ شعر پڑھتا ہوا بستی سے نکلا کہ۔

فقط جمہوریت ہوتی

یا دائم مارشلاء ہوتا

ڈبویا مجھ کو تبدیلی نے

نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

مشکل الفاظ کے معنی

1- طعام لوازمہ -- کھانا

2۔ طباق -- بڑی رکابی یا تسلہ

 مستورِ خانہ -- پردے دار گھریلو عورت

3۔ہفت اقلیم -- سات براعظم پرانے دور میں زمین کی جغرافیائی تقسیم کے مطابق زمین سات حصّوں پہ مشتمل تھی- جنہیں اقلیم کہا جاتا تھا۔

4۔ خسروئے یگانہ نوشیران زمانہ- سخاوت کی طرف اشارہ ہے- نسبت جس کی عموماً خسرو اور نوشیروان بادشاہ کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔

5۔ مستورِ خانہ -- پردے دار گھریلو عورت

 

ظفر اقبال محمد 


Comments