ظفر جی
ملاقات
حاتم با مسافران
حاتم گیت
گاتا ، کنستر بجاتا دریا کنار اپنی موج میں مست جا رہا تھا کہ نگاہ ایک پِیرِ مرد
پہ پڑی جو دونوں بازوؤں سے یکسر محروم تھا اور مسلسل رقص کرتا تھا۔
حاتم نے
خیال کیا کہ کیا ہی شکر گزار بندہ ہے- رنج
و الم سے بھری زیست میں جو ساعت خوشی کی میسر آئی اس پہ شکرمند ہے- تٌف اس بشر پہ جو اوروں کے غم پہ سرشار ہو اور
دوسروں کو خوش دیکھ حسد سے بیمار ہو۔
حاتم نے
اس پیرِ مرد کی خوشی میں شریک ہونے کا اصولی فیصلہ کر لیا- وہ آگے بڑھا اور کلانچ بھر بھر لُڈّی ڈالنی شروع
کر دی- جب دونوں ناچ ناچ ہلکان ہو چُکے تو
اس پیرِ مرد نے توقف کیا اور حاتم سے پوچھا:
آقا مُجھے
تو کمر پہ خارش ہے ، آپ کس خوشی میں ناچتے ہو؟
حاتم نے کہا
، واللہ میں تو آپ کو سرشار دیکھ سمجھا کہ شاید تیل سستا ہو گیا یا کرائے سفر کے نصف
ہو گئے؟ برق پہ بخشیش مل گئی یا غاز پہ تخفیف ہوئی !
وہ شخص
بولا ، آقا کیوں خوش فہمیاں پال، اپنے تئیں ہلکان کرتے ہو- شنید ہے کہ پادشاہ ملکِ نیم روز کا بھی میری طرح
دست بریدہ ہے- شام پگاہ محل میں اپنے
ناچتا اور راگ بھیروی الاپتا ہے- یہ فقیر
بھی دونوں بازوؤں سے محروم ہے ، اور کمر
کی خارش کے سبب اچھلنے کودنے پہ مجبور ہے۔
حاتم نے
کہا، خاطر جمع رکھ، ابھی تیری تکلیف کا ازالہ کیے دیتا ہوں۔
حاتم مدد
کردن اوں خواجہ دست بریدہ و خارش کردن با قلم سرکنڈہ
اس کے بعد
حاتم اپنی راہ ہو لیا- کچھ آگے گیا تو کیا
دیکھتا ہے کہ ایک شخص معتبر صورت ، گوش
پیچ و کمربند باندھے ، ایک مرتبان سونے کا
جڑاؤ سر پہ دھرے، خراماں خراماں چلا آتا
ہے- حاتم تسلیمات بجا لایا اور احوال اس
پیرِ مرد کا دریافت کیا۔
وہ بولا:
اے حاتم ،
میں غریب الوطن کبھی دل پسند و سعادت مند
پادشاہ ملکِ نیم روز کا تھا- چرخ و فلک
دشمن ہوئے اور تخت کا پایہ کسی نے اتار لیا- اب ایک مدّت سے درد بدر ہوا پھرتا ہوں۔
حاتم نے
کہا، اے درویش- اب کہاں کا قصد ہے اور اس مرتبان میں کیا کچھ
مالِ نقد ہے؟
اس پیرِ
مرد نے مرتبان سر سے اتارا ، سرپیچ سے چہرہ انور صاف کیا اور ایک پیڑ کی چھاؤں میں
دو زانو ہو بیٹھا- پھر اپنا قصّہِ پردرد
کچھ یوں سنایا کہ:
یہ بندہِ
بے دام ایک سالارِ غازی کا غلام تھا- اس
غازیِ مرد نے ایک باندی مجھے ہبّہ کی، نام جس کا جمہور بانو تھا- حسن اس باندی کا کیا بیان کروں کہ اسے دیکھ
آفتاب چھپ جاتا اور ماہتاب کانوں کو ہاتھ لگاتا تھا- اس کی مدھر تان سے آنکھ میری کھلتی اور اس کی
لوری پہ ہی بند ہوتی تھی- غرض کہ ایک پل بھی اس سے جدا ہونا گوارا نہ تھا۔
ایک روز
وہ باندی ، چھت پہ بیٹھی گیسوئے دراز سُکھاتی اور آئینہ دیکھ مسکراتی تھی کہ گزران
وہاں سے کوتوالِ شہر کے مونہہ بولے پسرِ خوار کا ہوا- اس بدبخت نے جو ٹکٹکی باندھ اس باندی کو دیکھا
تو جھٹ اس پہ فدا ہو گیا۔
اس روز سے
وہ فرزندِ سرکاری ، کسی بیماری کی طرح
میرے سر ہوا اور دشمن گھر کا ہوا- عاملوں
کے تئیں گنڈے کئے اور ایک نائن کے ہاتھ اس باندی کو گھوٹ گھوٹ کے تعویز پلوائے-
محل سرا کے پائیں باغ میں کانٹا سیہہ کا دبایا اور سیاہ بلّیاں شہر بھر کی پکڑ
دیوانِ عام میں لے آیا- الغرض جہاں سے یہ فقیر گزرتا ، کوئ نہ کوئ پتّھر آتا یا
بلّی رستہ کاٹ کے گزر جاتی۔
اس سنگ دل
نے ہفت اقلیم سے کاٹھ کے الّو جمع کیے اور میرے پیچھے لگا دیے- گز گز کی زبان سے ،
صبح شام مجھ پہ دشنام کرتا اور اس باندی درماندی کو پریشان کرتا۔
میں مسکین
سر نہواڑے ، رضائی اوڑھے پڑا رہا کہ خود ہی شرافت سے باز آ جاوے گا اور پیچھا اس
مسکین کا چھوڑ دیوے گا- صد حیف کہ وہ باز نہ آیا اور تعویزوں نے اپنا کام کر دکھا
دیا۔
بارے ایک
روز وہ بہشتن مجھ سے آزادی کا تقاضا کرنے لگی- بولی کہ تجھ گاؤدی سے بہتر تو یہ
دیوانہ ہے ، کم از کم مونہہ میں زبان تو رکھتا ہے- میں نے بہتیرا سمجھایا کہ کاہے
کو اپنی دشمن آپ ہوتی ہے- یہ نوسرباز ، دہن دراز ، مونہہ چلانے لائق تو ہے ، گھر
چلانے لائق ہرگز نہیں۔
القصّہ
کوئ چارہ کام نہ آیا اور ایک روز وہ باندی مجھے برباد کر کے اس بدبخت کے ساتھ فرار
ہو گئ- کوتوال نے ناکہ لگایا اور شہر والی
پلیا پہ دونوں کو دھر لیا- بارے اس مجنون
کو محل میں نظربند کیا اور جمہور بانو سے خود نکاح کر کے بیٹھ رہا۔
یہ دیکھ
غیرت میری بیدار ہوئ اور اس نوسربازی پہ شورو غوغا کیا- فقیہہِ شہر ، جو میرا ہم پیالہ و ہم نوالہ تھا ،
زرد رومالہ سر پہ باندھ میرے ہمراہ ہوا- اس کوتوال نے فقیہہ پہ جانے کیا سحر پھونکا ، مجھ پہ تو کیس سرقہ گری کا ڈال ، پنڈت خانے میں
لا پھینکا- بارے اس بیمار و لاچار نے ہاتھ
جوڑے کہ غم گسار اگر زندان سے چھوڑے تو کبھو نام اس لونڈی کا نہ لوں گا اور تمام
عمر صبرو شکر سے پردیس میں گزار دوں گا۔
تب سے لے
کر آج تلک یہ فقیرِ بے تقصیر دیس دیس کی خاک چھانتا پھرتا ہے اور شام پگاہ اس
باندی کو یاد کرتا ہے۔
حاتم نے
پوچھا آقا اس مرتبان میں کیا ہے؟
وہ بولا:
اس میں آم
کا مربّہ اور لسوڑھے کا اچار چٹخارے دار ہے۔
حاتم نے
کہا ، بھلا داتا کس بھاؤ بیچتے ہو؟
وہ درویش
اِک آہ نامرادی کی بھر کے بولا ، یہ بیچن
واسطے نہیں ، حفظِ ماتقدّم لیے پھرتا ہوں- شاید اس لونڈی سے کہیں میل ملاقات ہو جاوے- وہ امید سے ہووے اور اچار کھاوے تو دافعِ ابکائی
ہے - دوسرا وہ کوتوال بھی شاید ترقّی پا چکا
ہو- پرسشِ احوال کے واسطے آم کا مربّہ بھی
ساتھ ہے کہ برادرِ صغیر اس فقیر کا ، اسی کوتوال کی بیگار کرتا اور شکر خدا کا ادا
کرتا ہے۔
حاتم نے
کہا:
یا الوس
جلوس ! اس باندی کے تئیں تو اگلے پنچ سال ، کسی خوش خبری کی کوئی امید نہیں- اگر
کوئی نطفہ راہ بھول ٹھہر بھی گیا تو حالات ملکِ نیم روز کے دیکھ ساقط ہو جاوے گا-
میں خود دیس سے فرار شدن ہوں اور دریا پار اترنے کی سبیل ڈھونڈتا ہوں۔
یہ کہ کر
حاتم نے کشتی کی تلاش میں ادھر ادھر نظر دوڑائ- جب کوئ کھیون ہار نظر نہ آیا تو خدا کو یاد کرتا
ہوا دریا میں کوُد گیا- پہلے سیدھی تیراکی
فرمائی ، پھر الٹے ہاتھ چلائے- اس کے بعد اندازِ تتلیانہ اپنایا ، بالاخر کپڑے
جھاڑتا اٹھ کھڑا ہوا اور کفِ افسوس مل کے بولا:
جب تلک
پڑوسی ہمارے دریاؤں میں سیلاب نہیں چھوڑتا ہم دوڑ کر ہی دریا پار کریں گے۔
حاتم پار
کردن اوُں دریائے خشک و تر است و ملاقات کردن شاهزاده منیر شامی ، ماتم کردن برلبِ
دریا اوست۔
مشکل
الفاظ
قطع برید
-- ہاتھ کٹّا
مُلک نیم
روز -- ایک تخیلاتی مملکت جس کا تذکرہ میر امن دہلوی نے "قصہ باغ و
بہار" میں کیا-
گوش پیچ
-- کانوں میں پہنا جانے والا مغلیہ فیشن جو عموماً درباری خواجہ سرا پہنتے تھے-
سرپیچ --
صافہ
کمربند --
مغل دور کا ایک پٹکا جو شرفا کمر پہ باندھتے تھے-
ضرب و
شلاق -- تشدد
شام پگاہ
-- صبح شام
کھیون ہار
-- ملاح
اندازِ
تتلیانہ -- سوئمنگ کا بٹر فلائ اسٹائل
پنڈت خانہ
-- محل کے زیریں حصے میں بنا قید خانہ
(لغاتِ ظفری)
ظفر اقبال محمد
Comments
Post a Comment