Zafar Gee's Qissa Hatim Tai Episode 3

 

قصّہ حاتم طائی  قسط  3

ظفر جی



 ملاقات حاتم با شاہزادہ منیر شامی

حاتم دریا کے دوسرے کنار پہنچا تو ایک پیرِ مرد کو دیکھا کہ رنگت زرد ، ہاتھ سرد ، چہرے پہ گرد ، زلف برہم ، آنکھ پرنم،  ریگِ ساحل پہ چت لیٹا ، دھاڑیں مار مار روتا ہے۔

حاتم اس کے پاس جا بیٹھا اور اس سے بھی اونچی آواز میں رونے لگا- جب دونوں رو رو کے ہلکان ہو چکے تو اس جوان پراگندہ صورت نے کہا:

اے اجنبی ، کسی دکھیارے کی نقل اتارنا بہت ہی بری بات ہے۔

حاتم نے کہا، اے غمزدہ ،  مجھے کیا پڑی کہ تیری نقل اتاروں؟ میں تو اپنے سلطان خوار بخت کی یاد میں روتا ہوں-  وہ پادشاہ مُلکِ نیم روز کا ہے-  پہلے تخت کو روتا تھا ، اب بخت کو روتا ہے- رعایا اس کا درد بٹانے کو ساتھ ساتھ روتی ہے- چل اب مزید آنسو نہ بہا اور اپنی رام کہانی مجھے سنا- شاید یہ بندہء بیکار تیرے کسی کار آ سکے۔

اس پیرِ مرد نے ایک سرد آہ بھری اور روتے ہوئے فارسی کا یہ شعر پڑھا کہ:

درد است و قبض است و مروڑ است بھائیں بھائیں

نہ غمگسارم ، نہ کوئ یارم ، می خوارم بھائیں بھائیں

حاتم نے تڑپ کر داد دی اور کہا واہ ، کیا مریضانہ شعر پیش کیا ہے- اب حکیمانہ جواب بھی سُن لے کہ:

کلونجی ، نوشادر ٹھیکری ، مرچ سیاہ اور سونٹھ

ثناء مکّی ، گل سرخ پودینہ ، زیرہ ڈال کے سُونگھ

وہ شخص مکرّر مکرّر کہتا جھکا اور جُھکتا ہی چلا گیا- حاتم نے بمشکل اسے سیدھا کیا اور دوزانو بٹھا دیا-  پھر کہا کہ اے درویش اس سے پہلے کہ یہ خیر اندیش تیری کھال کھینچ کے رکھ دے ، اپنا قصّہِ پردرد مجھے سنا۔

قصّہء عشق پُردرد شاھزادہ منیر شامی کبابوی دادفتیانوی

اے اجنبی ، نامِ نامی میرا منیر شامی ہے- داد فتیانہ اڈّے پہ شامی کباب کی ریڑھی لگا کر مخلوق کی شکم سیری کا انتظام کرتا تھا اور اپنے تئیں شہزادہ کہلوانا پسند کرتا تھا۔

ایک روز کا قصّہ ہے کہ یہ گلفام ، سیخ پہ بوٹی کسی مرغِ حرام کی چڑھا رہا تھا کہ غول پری زادیوں کا بازار سے گزرا- تیر قضا کا فلک سے چھُوٹّا ، قلبِ فقیر کام آیا- نگاہ ایک گل اندام پہ پڑی عاشق زیرِ دام آیا۔

ہائے حُسن کیا اس کا بیان کروں کہ چاند بھی سردرد کا بہانا کر کے بادل کا لحاف اوڑھ لے- اس کی زلفِ گرہ گیر سے الجھ کر کئی راہ گیر اوندھے مونہہ گرے اور کپڑے جھاڑ  اٹھ کھڑے ہوئے- مجھ سے دو کباب شامی، دو سیخ بوٹی ، دو کلیجی فرائی اور ایک کٹّاکٹ بنوا ، چٹنی سبز مرچوں کی اوپر چھڑکا وہ پادشاھزادی ایک سہہ چرخہ پہ سوار ہوئی اور ہوا ہو گئی۔

میں اس پہ فریفتہ ہوا اور ہوش جہان کا نہ رہا- جب بھی کسی سہہ چرخہ کو دیکھتا ، سیخ کباب اپنے دل کا بنا کر اس کے پیچھے بھاگتا-  دن اس فتنہِ حسن کے شوق دیدار میں تڑپتے گزرتا اور شب کشور کمار کے درد بھرے گیت سنتے بسر ہوتی۔

واقفانِ حال سے بس اتنا  معلوم ہو پڑا کہ نام اس شہزادی کا حسن بانو ہے اور حفاظت اس زہرہ جبین کی ایک شیش ناگن کرتی ہے جو رشتے میں اس کی نانو ہے۔

حاتم نے کہا یا للعجب-  تو نے اس مہہ جبین کے تئیں رشتے کےلئے اپنی انّاں کو کیوں نہ بھجوایا؟

شہزادے نے ناک پونچھ کر یہ شعر پڑھا کہ۔

سنا یہ ہے بنا کرتے ہیں جوڑے آسمانوں پر

تو یہ سمجھیں کہ ہر بیوی بلائے آسمانی ہے ؟

اے خیر اندیش !! عشق اپنے ساتھ رقیبانِ روسیاہ کی فوجِ ظفر موج لاتا ہے- ادھر میں نے انّاں کو راضی کیا ، اُدھر چہار دانگ عالم سے کئ بٹ , رانے ، ٹوانے اور جٹ اپنی اپنی انّاّؤں کو لے کر کے جھٹ محل پہ اس بلائے ناگہانی کے جا کھڑے ہوئے۔

رشتوں کا اژدحام دیکھ کر اس حُور کا غرور آسمان تک جا پہنچا-  کہنے لگی کہ خود عکسی لینی ہے تو حاضر ہوں ، شادی صرف اس جی دار سے کروں گی جو میرے سات سوالات کے شافی جوابات ڈھونڈ کر لاوے گا۔

اس کے بعد اس کی ظالم نانی نے مقبول فوٹو اسٹیٹ اینڈ گرم حمام سے سات سوالات کی فوٹوکاپیاں منگوائیں-  عاشقانِ دریدہ دہن کے مونہہ بند ہوئے اور وہ اپنی اپنی پرچیاں اور مونہہ اٹھائے چل دیے ، ایک میں ناہنجار ہی کھڑا رہ گیا۔

اس پادشاہ زادی نے توّجہ فرمائی اور بولی کھڑے کیوں ہو پا جی-  پرچی پڑھو اور جا کر پہلے سوال کا جواب تلاش کرو۔

میں نے کہا شہزادی ، پرچی پڑھ سکتا تو وزیرِ اعظم نہ ہوتا؟

بولی ، یہ کیا بات ہوئی؟

کہا ، انگوٹھا چھاپ ہوں۔

کہنے لگی، پھر دریا کے کنارے بیٹھ جا اور کسی حاتم کا انتظار فرما-  کیا خبر تقدیر کچھ موافق انتظام کر ہی دیوے۔

اے اجنبی ،  دو ہفتے بیت چکے ،  یہ فقیر سوالات کی پرچی جیب میں رکھے کنارے اس صحراء کے بیٹھا ہے ، جسے ساون بھادوں میں عموماً دریا کہا جاتا ہے- مدت ہوئی کسی حاتمِ ثانی کا منتظر ہوں جو گھر سے فارغ ہو ، اور اپنے سب کار چھوڑ اس بے کار کی یاوری کو نکلے۔

حاتم نے کہا اے عاشقِ زار ، خوش ہو جا کہ انتظار تیرا ختم ہوا اور امید بر آئی- نام میرا حاتم اور وطن بزرگوں کا رینالہ ہے ، چائےکا پیالہ جہاں تیس روپے کا ٹھنڈا ملتا ہے- زوجہ نے سخاوت سے تنگ آ کر اس فقیر کو گھر سے نکال دیا ہے- کارِ دیگر کوئی نہیں اور فراغت جان کو آنے لگی ہے-  خدا نے چاہا تو جان تلی پہ رکھ کے جاؤں گا اور جوابات سب سوالوں کے شافی ڈھونڈ کے لاؤں گا۔

حاتم فرمائش کردن کہ پرچیاں پکڑاؤ است و خواندن اُوں پرچہ جات و غور کردن سوالات را۔

پرچہ ہفت سوالات برائے نکاح شاہ زادی حسن بانو آف داد فتیانہ

ایک بار دیکھا ہے ، دوسری بار دیکھنے کی حسرت بالکل نہیں ہے۔

   سچے کو ہمیشہ تکلیف ہے۔

 نیکی کر اور نیٹ پہ ڈال۔

3۔ کسی سے بدّی کا مت سوچ ، ورنہ برا صلہ پائے گا۔

4۔ کوہِ ندا کی خبر لا۔

5۔ گدھے کے انڈے کے برابر کا موتی لا

 حجامِ آوارہ گرد کی خبر لا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 

تحریر ظفرجی

لغاتِ ظفری

پراگندہ صورت -- الجھا ہوا چہرہ

گل اندام -- پھول سا جسم

سہہ چرخہ -- رکشا

انّاں -- میڈ

خود عکسی-- موبائیل سیلفی

عاشق زار -- عاشقِ خوار

دریدہ دہن -- مونہہ پھٹ

ظفر اقبال محمد 


Comments