"افسانہ لکھیں اور پڑھیں" رنگ وادب فورم
افسانہ ۔ ۴٧
افسانہ ۔ بےچین شہر کی پُرسکون لڑکی
تحریر: امین صدرالدین بھایانی
اٹلانٹا، امریکا۔
۔......................................................
آج پھر وہ غیر حاضر تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!
پہلے روز تو میں نے سوچا کہ شاید کوئی ضروری کام آن پڑا ہوگا جس کے سبب دفتر نہ آ سکی ہوگی۔ البتہ جب تین روز گزر گئے تو مجھے تشویش ہوئی۔ اُس کے ساتھ کام کرنے والے دوسرے لوگوں سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اُنھیں بھی کچھ علم نہیں۔ سب سے زیادہ حیرت تو اِس بات پر ہوئی کہ کسی کے پاس اُس کا فون نمبر تک نہ تھا۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ ایچ آر ڈیپارٹمنٹ سے معلوم کروں کہ میرے کیبن کا دروازہ کھلا اور آفس بوائے اندر داخل ہوا۔ میری میز کے قریب یوں کھڑا ہو گیا جیسے کچھ کہنا تو چاہتا ہو مگر کہہ نہ پا رہا ہو۔ اُس کی نگاہیں اپنے جوتوں پر گڑھی ہوئی تھیں۔ ایک ہاتھ سے بالوں کو کھُجاتا ہوا بولا۔ ”حسن صاحب۔ ۔ ۔! وہ صدف میڈم کی کوئی خبر آئی؟“
میں اُس کی بات کا جواب نفی میں سر ہلا کر دینے ہی والا تھا کہ مجھے کچھ خیال آیا۔ ”تم کیوں پوچھ رہے ہو۔ ۔ ۔ ۔؟“
”جی۔ ۔ ۔! صاحب۔ ۔ ۔! بس۔ ۔ ۔! ویسے ہی ایسی کوئی خاص بات تو نہیں ہے۔“
اُس کے لہجے کی گھبراہٹ نے مجھے چونکا دیا۔ میں نے اُسے گھورتے ہوئے قدرے باآواز بلند کہا۔ ”میری طرف دیکھ کر بات کرو اور ٹھیک سے بتاؤ بات کیا ہے؟“
”جی صاحب۔ ۔ ۔! وہ۔ ۔ ۔! بات۔ ۔ ۔! کوئی بات نہیں۔ ۔ ۔! میں تو بس۔ ۔ ۔! وہ میڈم کچھ دنوں سے نہیں آ رہی ہیں نا۔ ۔ ۔! سوچا آپ کو کچھ علم ہوگا۔ بس یونہی پوچھنے چلا آیا“ وہ مجھ سے آنکھیں چُراتے ہوا بولا۔
اُس کی اِس حرکت نے میرے شک کو یقین میں بدل دیا کہ ضرور کچھ دال میں کالا ہے۔ اب کی بار میں نے سخت لہجے میں دریافت کیا۔ ”دیکھو، سچ سچ بتاؤ کہ کیا بات ہے ورنہ میں بہت بُری طرح پیش آؤں گا۔“
میرے کڑے تیور دیکھ کر وہ بے چارہ گبھرا گیا۔ ”جی حسن صاحب۔ ۔ ۔! وہ۔ ۔ ۔! وہ۔ ۔ ۔! وہ میڈم نے ہی کہا تھا کہ اِس بات کا کسی کو بھی پتہ نہ چلے۔ ۔ ۔!“
”کس بات کا پتہ نہ چلے۔ ۔ ۔؟“ میں نے گرجتے ہوئے کہا۔
”صاحب۔ ۔ ۔! میں غریب آدمی ہوں اور میڈیم کو پتہ چل گیا کہ میں نے آپ کو بتا دیا ہے تو وہ بہت ناراض ہوں گی اور مجھ غریب کا ناحق نقصان ہوجائے گا۔“ وہ روہانسا ہوتا ہوا بولا۔
”تم فکر نہ کرو۔ میں ہوں نا۔ میں تمھارا نقصان ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔ البتہ تم نے مجھے سب کچھ سچ سچ نہ بتایا تو سچ مچ تمھارا نقصان ہوجائے گا۔“ میں نے اپنے لہجے کو دھمکی آمیز بناتے ہوئے کہا۔
”ارے نہیں صاحب۔ ۔ ۔!“ وہ گھگیاتے ہوئے بولا۔ ”میں بہت ہی غریب آدمی ہوں۔ میرے دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔“ اُس کی آنکھیں بھرآئیں اور لہجہ تو اِس قدر گلوگیر ہوچکا تھا جیسے مانو ابھی رو ہی تو پڑے گا۔
میں نے اُسے دلاسا دیتے ہوئے کہا۔ "میں نے کہا نا کہ تمھارا نقصان نہیں ہونے دوں گا۔ بس تم مجھے فوراً بتاؤ کہ بات کیا ہے؟۔“ پھر جو کچھ اُس نے بتایا میں تو بس ہکا بکا سا ہو کرہی رہ گیا اور اُسے تسلی دے کر بھیج دیا۔
صدف مرزا۔ ۔ ۔! ایک ڈیڑھ برس سے اُس برآمداتی کمپنی جہاں میں مینجر متعین تھا، بطور پروڈکشن کوڈینیٹر کام کر رہی تھی۔ اُس کے فرائض میں آرڈز کی بروقت ترسیل کے لیے فیکڑی میں پروڈکشن سپروائیزر کے ساتھ جاری کام کی رفتار پر نظر رکھنا اور تمام زیرِتکمیل آرڈز کی موجودہ صورتحال کی روزانہ کی بنیاد پر رپورٹس تیار کر کے متعلقہ اسٹاف تک پہنچانا تھا۔
وہ کچھ عجیب سی لڑکی تھی۔ ۔ ۔!
دفتر کے تمام مرد و خواتین اسٹاف میں گھلنے ملنے سے اجتناب برتی اور سارا وقت اپنے کام میں مصروف رہتی۔ اُسے اپنی نشست سے بہت کم اُٹھتے ہوئے دیکھا۔ اپنی تیار کردہ رپورٹوں کو متعلقہ شعبے یا اسٹاف تک پہنچانا ہو تو وہ اُنہیں آفس بوائے کے لیے رکھی گئی مخصوص ٹوکری میں ڈال دیا کرتی جسے وہ آتے جاتے اُٹھا کر اُس پر لکھے نام والی میز یا کمرے میں پہنچا دیا کرتا۔
دفتر میں اسٹاف کے لیے ایک وسیع لنچ روم تھا جہاں سب ایک سے دو کے درمیان کھانا کھاتے اور فارغ ہو کر آرامدہ صوفوں پر براجمان ہو کر کافی اور چائے سے لطف اُٹھاتے۔ مگر وہ اپنا لنچ جو کہ عموماً سینڈوچ یا سلاد پر مشتمل ہوتا، آفس بوائے سے منگوائی گئی چائے کے ساتھ اپنی میز پر ہی بڑے اطمینان کے ساتھ دھیرے دھیرے ختم کرتی۔ اُس وقت تک اُس کی چائے مکمل طور پر ٹھنڈی ہوچکی ہوتی جسے وہ بڑے بڑے گھونٹ بھر کر پیتی اور پھر دفتر کے دوسروں لوگوں کے برعکس لنچ کا وقفہ ختم ہونے کا انتظار کیے بناء ہی فوری طور پر دفتری کاموں میں مشغول ہوجاتی۔
چار بجے شام کی چائے پیش کی جاتی۔ جیسے ہی آفس بوائے اُس کی میز پر گرما گرم بھاپ اُڑاتی چائے کی پیالی رکھتا، وہ اپنی دراز میں سے بسکٹ کا پیکٹ نکال کر سکون و اطمینان کے ساتھ چند بسکٹ نوش کرتی۔ اُتنی دیر میں چائے کی گرمی بھی ختم ہو چکی ہوتی اور وہ بڑے بڑے گھونٹ بھر کر چائے ختم کرلیتی۔
دفتر ایک مخصوص رکشے سے آتی اور شام کو وہی رکشہ اُسے لینے بھی آتا۔ دفتر کے کئی خُوش شکل و خُوش پوش نوجوان اُس کے اِردگرد توجہ حاصل کرنے کے لیے منڈلاتے رہتے۔ مگر وہ اپنے کام میں سر جھکائے یوں مگن رہتی جیسے اُسے کسی کے ہونے کا احساس ہی نہ ہو۔ وہ سارے اسٹاف میں مغرور حسینہ کے نام سے مشہور تھی۔ حالانکہ میں نے اُسے ہمیشہ بہت ہی بااخلاق اور مہذب پایا۔ اُس کا لہجہ مدھم و دھیما، پُرخلوص اور چہرے پر ہمیشہ ایک ہلکی سی دوستانہ مسکراہٹ نمایاں رہتی۔ مگر کسی سے ازخُود بات کرتے کبھی نہ دیکھا۔ نہ ہی کبھی اسٹاف پکنک یا پارٹی وغیرہ ہی میں شریک ہوتی۔
ویسے تو میں ایک خوش و خرم شادی شدہ، بال بچوں والا شخص اور عمر میں بھی اُس سے کوئی بارہ پندرہ برس بڑا ہی تھا تو ظاہر ہے کہ میری اُس میں دلچسپی کی وجوہات ہرگز وہ نہ ہوسکتی تھیں جو کہ اسٹاف میں موجود نوجوانوں کی تھیں۔ مگر یہ بھی قدرت کا ایک اٹل اُصول ہے کہ خُوبصورتی ہر انسان کو اپنی طرف ضرور متوجہ کرتی ہے اور پھر اُس کا یہ عجیب و غریب رویہ مجھے اکثر و بیشتر اُس کے بارے میں سوچنے پر مبجور کیے رکھتا۔
میری دلچسپی کی وجہ محض اُس کا ملکوتی حسن اور معصومیت بھرا چہرا ہی نہ تھا۔ ایک اور بات بھی اُس میں ایسی ضرور تھی جو اُسے دوسروں سے منفرد بناتی تھی۔ اسٹاف کا کم و بیش ہر رکن دفتری کام سے زیادہ دفتری سیاست، افسرانِ بالا کے حوالے سے چہ مگوئیاں، حالاتِ حاضرہ تو کبھی اپنے گھریلو مسائل کو لے کر اور اگر کچھ نہ میسر آئے تو ایک دوسرے کے آپسی معاملات کے حوالے سے کچھڑی پکاتا رہتا۔ اِس کے برعکس میں نے اُسے کبھی بھی اِس قسم کی باتوں میں شریک ہوتے نہیں دیکھا۔ بلکہ اکثر ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے اِس مصروف دفتر میں دنیا بھر کے معاملات کو لے کر بے چین رہنے والے نفوس میں وہ فردِ واحد ہے جو پُرسکون ہے۔
میرے کیبن کی یک طرفہ منظر دکھاتی بڑی سی کھڑکی کے شیشے سے مرکزی ہال جہاں دفتر کے بیشتر اسٹاف کی میزیں تھیں کے ایک کونے میں لگی میز پر وہ اپنے میک اپ سے عاری معصوم سے کتابی چہرے، عینک کی اوٹ سے جھانکتیں گہری جھیل جیسی پُرسکون بڑی بڑی آنکھوں، گورے رنگ پر ستواں ناک اور گلاب کی پنکھڑیوں جیسے تراشیدہ لب اور ایک گہرے سکون کی کیفیت کے ساتھ دوسروں کے معمولات سے قطعاً بے نیاز و بے پرواہ ہمہ وقت کام میں مہنمک نظر آتی۔
ایک دن بڑی عجیب بات ہوئی۔
اُس روز میرے سر میں شدید درد تھا۔ عموماً مجھے سر درد کی شکایت ہوتی نہیں۔ مگر جب کبھی سر میں درد اُٹھتا ہے تو پھر اگلی پچھلی ساری کسر نکال کر ہی جاتا ہے۔ شام چار بجے کے قریب اچانک سر میں درد اُٹھا اور پھر دھیرے دھیرے اِس قدر شدت اختیار کر گیا کہ ہر آتی جاتی سانس کے ساتھ شدید دردناک ٹیسیں اُٹھتی۔ چھٹی ہونے میں ابھی کوئی گھنٹہ بھر رہتا تھا۔ درد رفع گولی بھی لے چکا تھا مگر درد ویسے کا ویسا ہی تھا۔ کام اِس قدر تھا کہ چاہتے ہوئے بھی میں جلدی گھر نہیں جا سکتا تھا۔ ایک غیرملکی فرم کا بہت بڑا آرڈر انتہائی سرعت کے ساتھ تکمیل پزیر تھا جو اگر ایک خاص تاریخ تک فراہم نہ کردیا جاتا تو کمپنی کو بہت بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ میں نے انٹرکام پر صدف کو مزکورہ آرڈر کی تازہ ترین رپورٹ لے کر اپنے کمرے میں آنے کو کہا اور آنکھیں بند کر کے انگلیوں سے درد کی ٹیسوں سے پھٹتی پیشانی کو زور زور سے رگڑنا شروع کردیا۔ مجھے معلوم ہی نہ ہو سکا کہ کب وہ میرے کمرے میں آ کر میز کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ وہ تو جب میں نے کچھ دیر بعد آنکھیں کھولی تو اُسے وہاں کھڑے مجھے بڑی عیجب سی نظروں سے گھورتے ہوئے پایا۔ جن نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی، پہلے تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے اُن میں ایک وارفتگی سی ہو۔ میں نے اِسے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے پروڈکشن کی تازہ ترین صورتحال دریافت کی۔ اُس نے بتایا کہ جس رفتار سے کام جاری ہے، پروڈکشن اور پیکنگ وغیرہ کے بعد وقت سے پہلے ہی شپمینٹ کردی جائے گی۔ اِس دوران میں نے محسوس کیا کہ اُس کی نظروں میں وارفتگی نہیں بلکہ رشک کی سی ایک کیفیت ہے۔ سُننے میں تو یہ بات بڑی عجیب سی لگتی ہے مگر شاید تھا کچھ ایسا ہی۔ کیونکہ جب میں پیشانی رگڑتا، مجھے اُس کی آنکھوں میں اُس چھوٹے سے بچے کی سی چمک نظر آتی جو کسی دوسرے بچے کے ہاتھوں میں اپنا من پسند کھلونا دیکھ کر رشک و تحسین بھری نظروں سے دیکھ رہا ہو۔ خیر میں نے اِسے اپنا واہمہ جانا۔
چند روز بعد کمپنی کے کلرک ریاض الدین کی کمر میں زمین پر گرا قلم جھک کر اُٹھاتے ہوئے چُک پڑ گئی اور وہ شدت درد سے پہلے تو زور سے چلایا اور پھر اپنی نشست پر ڈھیر ہو کر ہائے ہائے کرنے لگا۔ تمام اسٹاف کی نگاہوں میں اُس کے لیے ہمدردی تھی مگر صدف کی آنکھوں میں بالکل وہی تاثرات نظر آئے۔
پھر باقی رہا سہا شک اُس روز یقین میں بدل گیا جب ایک حادثے کے سبب کمپیوٹر آپریٹر مختار احمد کئی روز تک مسلسل دفتر نہ آ سکا۔ اسٹاف کے چند لوگ اُس کے گھر عیادت کو گئے اور اگلے روز واپس آ کر انہوں نے اُس کی ٹانگ کی ٹوٹی ہڈی کے درد کا نقشہ کچھ یوں کھینچا کہ سُننے والوں کو خُود اپنی ہڈیوں میں درد کی لہر سی اُٹھتی محسوس ہوئی۔ مگر اُس کے چہرے اور آنکھوں میں وہی پہلے والے تاثرات تھے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ یہ کوئی بے حد گھُنی لڑکی ہے جو چہرے پر خاموشی اور معصومیت کا نقاب اُوڑھے دوسروں کی تکالیف سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ مگر یہ سوچ کر زیادہ توجہ نہ دی کہ ہر انسان کا اپنا مزاج اور شخصیت ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہے بھی تو مجھے اِس سے کیا؟۔ ۔ ۔!!!۔
پھر ایک روز ایک اور عجیب بات ہوئی۔
میں نے انٹر کام پر صدف کو آفس بوائے کے ہاتھوں ایک اہم ترین آردڑ کی رپورٹ جس پر وہ کام کررہی تھی، فوری بھجوانے کو کہا۔ کچھ ہی دیر میں آفس بوائے ایک فولڈر میری میز پر دھر گیا۔ میں نے فولڈر کھول کر کاغذات پلٹنا شروع کیے۔ ابھی دو چار صفحات ہی پلٹے ہوں گے تو مجھے ایک چھوٹا سا کاغذ کا ٹکڑا نظر آیا۔ میں صدف کی لکھائی اچھی طرح سے پہچانتا تھا۔ کاغذ کے ٹکڑے پر ایک شعر اور کچھ چھوٹے چھوٹے سے پھول یوں بنے ہوئے تھے جیسے کسی نے سوچوں کے دھارے میں بہتے ہوئے سامنے موجود کاغذ کے ٹکڑے پر کوئی لفظ یا شعر لکھ کر پھول پتیاں بنا دی ہوں۔ شعر پڑھ کر تو میں حیران سا رہ گیا۔
درد سے میرا دامن بھر دے یا الله
پھر چاہے دیوانہ کر دے یا الله
میرے وہم و گمان میں نہ تھا کہ اُسے شعر و ادب سے شغف ہوگا اور اِس قدر گہرے اشعار کا ذوق بھی رکھتی ہوگی۔ موقعہ پا کر میں نے اُس سے شعر کے بارے میں دریافت کیا۔ اُس کے چہرے پر ایک عجب سا تاثر نظر آیا۔ ہونٹوں کو ہلکے سے بھینچ کر اپنی نگاہیں کہیں دور خلاؤں میں مرکوز کرتے ہوئے ایک گہری سانس لی۔ پھر ایک ہلکا سا تبسم اُس کے ہونٹوں پر اُبھرا۔
”حسن صاحب، یہ میرے پسندیدہ شاعر قتیل شفائی کا شعر ہے اور مجھے بے حد پسند ہے۔“
ابھی میں اُس سے کچھ اور پوچھنے کی جستجو کر ہی رہا تھا کہ وہ میری میز کے سامنے لگی کرسی سے اُٹھی اور کیبن کا دروازہ کھول کر مجھے حیران و پریشان چھوڑ گئی۔ کچھ عرصہ تو میں اُن تمام باتوں کے متعلق سوچتا رہا پھر دفتری اور گھریلو مصروفیات میں کچھ یوں الجھا کہ وہ ساری باتیں میرے ذہن سے محو ہوتی چلی گئی۔
ایچ آر ڈیپارٹمینٹ سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اُس نے غیر حاضری کی درخواست دی ہے اور نہ ہی کوئی اطلاع فراہم کی ہے۔ میں نے فون پر اُس کی خیریت معلوم کرکے مجھے خبر کرنے کی ہدایت دی۔ کچھ ہی دیر بعد بتایا گیا کہ اُس کی پرسنل فائل میں موجود سیل فون اور گھر کے نمبروں سے کوئی جواب نہیں آ رہا۔ کافی سوچ و بچار کے بعد اُس کے گھر کا پتہ اس ارادے سے حاصل کیا کہ شام کو دفتری اوقات ختم ہوجاتے کے بعد میں اُس کے گھر کا چکر لگاؤں گا تاکہ معلوم تو ہو کہ آخر ماجرا کیا ہے؟۔
گھر کا پتہ دیکھ کر مجھ پر ایک اور بجلی گری۔ یہ شہر کے سب سے متمول رہائشی علاقے کا پتہ تھا، جہاں شہر کے کھاتے پیتے لوگوں کی کوٹھیاں اور بنگلے تھے۔ دفتر سے نکل کر میں نے گاڑی کا رخ اُس کے گھر کی طرف پھیر دیا۔ سارے راستے میں بس اِسی سوچ میں غلطاں و پیچاں رہا کہ یہ صدف آخر ہے کون؟ میں جتنا اُس کے بارے میں سوچتا، اُس کی شخصیت اُتنی ہی پُراسرار محسوس ہوتی۔ تھوڑی دیر کے بعد میں اُس کے گھر کے سامنے کھڑا تھا۔ اِردگر ایستادہ بڑی بڑی کوٹھیوں سے زرا ہٹ کر یہ ایک واحد چھوٹا مگر انتہائی خُوصورت سا بنگلا تھا جس کے عین سامنے والی بڑی سٹرک کے اُس پار ساحلِ سمندر کا دلفریب نظارہ آنکھوں اور دل کو لبھا رہا تھا۔
بنگلے کے دروازے پر بیٹھے چوکیدار نے میرے دریافت کرنے پر بتایا کہ یہ اُس کا ہی گھر ہے۔ جب میں نے اُس سے کہا کہ جا کر بتاؤ کہ اُن کے دفتر سے کوئی ملنے آیا ہے تو وہ بڑے ہی افسردہ اور گلوگیر لہجے میں بولا کہ بی بی صیب تو گذشتہ تین دنوں سے ہسپتال میں داخل ہیں۔ کھانا پکاتے ہوئے کپڑوں نے آگ پکڑلی اور زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا۔ اِتنا کہہ کر اُس نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے اور آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اُس کی صحت یابی کے لیے دعا کرنے لگا۔ میں نے گھر میں موجود کسی اور فرد کو بلانے کے لیے کہا۔ اُس نے بتایا کہ بی بی صیب کے علاوہ گھر میں صیب اور بیگم صیب ہوتے ہیں اور وہ بھی ہسپتال میں ہی ہیں۔ ہسپتال کا نام معلوم کیا اور گاڑی ہسپتال کی طرف موڑ دی۔
شام کے اوقات کے سبب تمام سڑکیں ٹریفک سے بھری پڑی تھیں۔ ہر سو ایک بے چینی کا سا سماں تھا۔ لوگ پیدل، سائیکلوں، اسکوٹروں، کاروں، ویگنوں اور بسوں میں بھرے یوں بے تابی اور بے چینی سے بھاگے چلے جا رہے تھے کہ جیسے اُن سب کی زندگی کا واحد مقصد صرف بھاگنا ہی تو ہو۔ نہ جانے کیوں بے اختیار صدف کا پُرسکون چہرہ میری نگاہوں کے سامنے پھرنے لگا اور ذہن کے کسی نہاں خانے سے یہ سوال اُبھرا کیا سچ مچ وہ اندر سے بھی اتنی ہی پُرسکون ہے یا محض پُرسکون نظر آنے کی اداکاری کرتی ہے؟۔
کچھ دیر بعد میں ہسپتال کے برنز وارڈ کے پرائیوٹ روم کے باہر کھڑا تھا۔ نرس مجھے باہر رکنے کا کہِ کر کمرے میں داخل ہوگئی۔ تھوڑی ہی دیر میں کمرے کا دروازہ کھلا اور اندر سے ایک مہربان صورت والے معمر صاحب برآمد ہوئے۔ آہستگی کے ساتھ دروازہ بند کرنے کے بعد مجھ سے ہاتھ ملایا اور بولے۔ ”فرمائیں، میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں؟“ میں نے اپنا تعارف کروایا۔ جس پر اُن کے چہرے پر شناسائی کے سائے لہرائے۔ ”اوہ اچھا تو تم ہو حسن میاں۔ صدف بٹیا اکثر تمھارا ذکر کیا کرتی ہے۔ مجھے شفقت مرزا کہتے ہیں، میں صدف کا والد ہوں۔ آؤ سامنے بیٹھ کر آرام سے باتیں کرتے ہیں۔“ انہوں نے برآمدے میں نصب بینچ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ”جی مجھے آپ کے چوکیدار کی زبانی پتہ چلا۔ بہت افسوس ہوا“ میں نے بینچ پر بیٹھتے ہی کہا۔ ”اب کیسی حالت ہے؟“ میری بات کے جواب میں انہوں نے کچھ کہا تو نہیں بس دور خلاؤں میں گھورتے رہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ شاید صدف کی حالت کچھ اچھی نہیں۔ جبھی تو وہ کچھ بتا نہیں رہے۔ پھر اچانک یونہی خلاؤں میں گھورتے ہوئے بولے۔ ”بس اللہ کا کرم ہوگیا۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے صرف دس فیصد جسم جھُلسا ہے۔ دو تین ہفتوں میں ٹھیک ہوجائے گی۔“
میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا بات کروں۔ بات جاری رکھنے کی نیت سے بولا۔ ”آپ کا گھر دیکھ کر مجھے یہ بخوبی اندازہ ہورہا ہے کہ صدف کو ملازمت کی چنداں ضرورت نہیں۔ ۔ ۔“ اُن کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی۔ ”ملازمت تو اپنے شوق اور خود کو مصروف رکھنے کے لیے کرتی ہے۔ ورنہ جو تنخواہ اُسے ملتی ہے وہ تو ضرورت مندوں کی مدد کرنے میں ہی خرچ کردیا کرتی ہے۔ میں ریٹائرڈ سول سرونٹ ہوں۔ کوئی تیس سال قبل گھر والا پلاٹ کوڑیوں کے مول خرید کر اُنھی اچھے وقتوں میں بنک سے قرضہ لے کر گھر بنوا لیا تھا۔ پینشن آجاتی اور فکس ڈیپازٹ اکاؤنٹ سے کچھ منافع بھی مل جاتا ہے۔ سو اللہ تعالیٰ کا کرم ہے اچھی بھلی گز بسر ہو ہی جاتی ہے۔ بس میں تو یہی چاہتا ہوں کہ صدف خوش رہے۔ وہ لوگ کی زندگیوں میں اپنی ذات کی نفی کر کے شامل ہونا چاہتی ہے۔ گھر میں گاڑی اور ڈرائیور کے ہوتے ہوئے بھی روز دفتر بھی رکشہ پر آیا جایا کرتی ہے۔ اُسے دولت، حیثیت، علم اور مرتبے کا استعمال کر کے دوسروں کو مرعوب کرنے والے لوگ بالکل پسند نہیں۔ میری بیٹی ایک عجب آزاد اور پرسکون روح ہے۔ اُسے زندگی، اپنی بیماری، مقدر حتیٰ کہ خدا سے بھی کوئی شکایت نہیں۔ “
”بیماری؟۔ ۔ ۔! مگر جل جانا تو کوئی بیماری نہیں؟۔ ۔ ۔!!!“ میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
صدف نہیں چاہتی کہ کسی کو یہ بات بتائی جائے۔“ وہ میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولے۔ مگر تم سے کیا چُھپانا، وہ ’سیپا‘ کی مریضہ ہے۔“
”جی کیا فرمایا آپ نے؟۔ ۔ ۔! کس کی مریضہ ہے؟۔ ۔ ۔!!!“ میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔ ”سی، آئی، پی، اے۔ ۔ ۔، سیپا۔“ انہوں نے ایک ایک حرف انگریزی میں بول کر بتایا۔ ”یہ کونسی بیماری ہے؟ میں نے تو اس طرح کی کسی بیماری کا نام آج تک نہیں سُنا؟“
”یہ ایک بہت ہی کمیاب بیماری ہے جو کروڑوں لوگوں میں بمشکل کسی ایک انسان میں پائی جاتی ہے اور جنیٹک ڈس آرڈر کے باعث ہوتی ہے۔ دو ہی تو شوق اِسے، پینٹینگ کرنا اور کھانا پکانا۔ وہ اکثر ضد کر کے ہمارے لیے کھانا بناتی ہے۔ اُس روز کھانا پکاتے ہوئے نجانے کیسے اُس کے کرتے نے چولہے سے آگے پکڑ لی۔ وہ تو بھلا ہو کہ اُس کی نظر جلتے ہوئے کرتے پر پڑی تو اُس نے آواز لگائی۔ ساتھ والے کمرے میں موجود ملازمہ نے اُس کی بروقت مدد کرتے ہوئے چادر لپٹ کر آگ بجھائی۔ جب صدف کوئی چند ماہ کی تھی تب فیملی ڈاکٹر کی توسط سے اِس بیماری کا پتہ چلا۔“
”مرزا صاحب۔ ۔ ۔! آگ۔ ۔ ۔! بیماری۔ ۔ ۔! بخدا میں کچھ بھی سمجھنے سے قاصر ہوں۔ ۔ ۔!!!“
”آؤ میں تمھیں سمجھاتا ہوں۔ ۔ ۔!“ اتنا کہہ کر اُٹھے اور مجھے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ دو قدم چل کر رُک گۓ جیسے کچھ یاد آ گیا ہو اور بولے۔ ”ارے ہاں بھئی۔ ۔ ۔، وہ صدف کے کہنے پر دفتر کے آفس بوائے کے دونوں بچوں کے اسکول کی فیس آج صبح ہی کسی کو بھیج کر جمع کروادی تھی۔ اُسے بتا دیجیے گا۔“
ہم دونوں صدف کے کمرے میں داخل ہوئے۔ وہ سکون آور اودیات کے زیرِاثر گہری نیند سو رہی تھی۔ اُس کے جسم کا زیریں حصہ ایک نیم دائرہ بناتی سفید جالی سے ڈھکا ہوا تھا۔ نیند پری اُس کے ملکوتی چہرے کو اور معصوم بنا رہی تھی۔ مرزا صاحب صدف کی طرف دیکھتے ہوئے آہستگی سے بولے۔
”ہم انسان درد کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں۔ ۔ ۔! نہیں جانتے کہ درد ہی تو ہمارا سب سے بڑا دوست ہے۔ ۔ ۔!!!“
اتنا کہہ وہ کچھ دیر سانس لینے کو رکے۔ مجھے اُن کا خاموش ہونا بے حد کھلا۔ چند گہری گہری سانسیں لے کر بولے۔
”لوگوں کی نظروں میں یہ بیمار ہے۔ ۔ ۔! مگر بیمار تو وہ ہیں جو دردِ دل سے محروم ہیں۔ ۔ ۔! یہ تو ہر کسی کا درد اپنے دل پر محسوس کرتی ہے۔ ۔ ۔! ہاں البتہ اُس کا جسم درد محسوس کرنے کی حس سے پیدائشی طور پر محروم ہے۔ ۔ ۔!!!“
Comments
Post a Comment