!!!!اُف
پُھول کیوں اُٹھا لائے
سال ہی تو بدلا ہے
حال وہی پُرانا ہے
ویسی ہی وحشتیں ہیں
تشنہ سی خواہشیں ہیں
دل کا کچھ پتہ نہیں
گھر کو بھی کھو آئے
جانے کس کے ہو آئے
ساتھ اب آوارگی ہے
منزلیں تو کھو گئیں
راہبروں کا کیا کرنا
جس طرف نکلتے ہیں
پوچھتے ہیں راستوں سے
کس سمت کو جانا ہے
کس کو یاد رکھنا ہے
کس کو بھول جانا ہے
کس کا ساتھ نبھانا ہے
ایسے میں بتاوُ تم
پُھول کیوں اُٹھا لائے
سال ہی تو بدلا ہے
حال وہی پُرانا ہے
Comments
Post a Comment