Ek Noha Garr Ki Talash Hai By Zahra Tanveer




جو اپنی درد بھری آواز میں سنائے
قصہ میرے بانجھ معاشرے کے
ان بانجھ مردوں کا
جن کی انا کے مینار اتنے بلند ہیں
کہ میری مائیں بہنیں اور آنے والی نسل کی بیٹیاں
گلی گلی گھر گھر مجبور ہیں
خود پہ بانجھ پن کا لیبل لگوانے پر
اپنی ممتا کا گلا گھونٹ کر ناجائز صبر کی
پیڑھی پر بیٹھنے پر
وہ کہتی ہیں
ہم بے جرم و خطا قیدی ہیں
ہماری سونی گود کا مجرم اور کوئی ہے
یہاں حق سچ کہنے والوں کی کمی ہے
بس اک نوحہ گر کی تلاش ہے
جو اپنی درد بھری آواز میں سنائے
ان تندرست عورتوں کی کہانی
جو گرم سرد رات کے پچھلے پہر اپنے دائیں بائیں کچھ ٹٹولتے ہوئے
آسمان کی جانب شکوہ کناں نظر ڈال کر سوال کرتی ہیں
میرے حصے کی ممتا کہاں لٹائی؟
میری تندرست کوکھ اجڑی کیوں کہلائی؟
مجھےکس گناہ کی سزا ملی؟
اے منصف! اس قید سے رہائی دلا۔
اب ضبط کا دامن چھوٹتا ہے
اب وقت ہے اصل مجرم کے
سماج کے کٹہرے میں پیش ہونے کا
میری خالی گود کرلاتی ہے
اپنے حصے کا انصاف چاہتی ہے۔




Comments