بابا دین مُحمد کے اس جملے نے مُجھے چونکا دیا ،،
میں نے بابا دین مُحمد کی سوچ کو یکسر مُسترد کر دیا ،،
بابا بولا بچے کرم کا مطلب عمل ھے ھندی زبان میں ،، کرم ،، عمل کو کہتے ھیں ،، میں نے کہا بابا جی نہ تو ھم اپنے عمل سے ھندو ھیں اور نا اُن کے پیرو کار ،،
بابا مُسکُرایا اور بولا ، بھائی اگر میں ثابت کر دوں کہ جو میں نے کہا ویسا ھی ھے تو معافی مانگو گے ؟؟
میں نے کہا ھاں مانگونگا ،، پر آپ آج مُجھ سے نہیں جیت سکتے ،،
بابا بولا واک چھوڑو آؤ گھاس پر بیٹھ کر بات کرتے ھیں ،،
میں اور بابا گُلشن پارک کے ایک باغ میں بیٹھ گئے ،
میں بیقرار ےتھا کہ بابا جی اپنی بات ثابت کریں ،
بابا میرے چہرے کے تاثُر کو پہچان گیا تھا بولا ، یہ بتاؤ کے نکاح تو الله کا حکم اور میرے آقا سرکار مدینہ کی سُنت ھے ، پھر یہ مایوں مہندی بارات کا کھانہ کیا ھے ؟؟
میں نے فٹ سے کہا ،، یہ سب رسمیں ھیں ،،
بابا نے پوچھا کہاں سے آئی یہ رسمیں ؟؟
میں نے کہا ھمارے بڑوں سے ،،
بابا نے قہقہہ لگایا بولا ھمارے بڑے تو چودہ سو سال سے یہاں رھتے ھیں مگر یہ رسمیں یہ رواج ھزاروں سال پُرانے ھیں ،
بیٹا ھر رسم پہلے سیکولر ھوتی ھے اور وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ دھرم کا حصّہ بن جاتی ھے ،، مطلب دھارمک ھو جاتی ھے ،
میں نے کہا بابا جی یہ رسم ورواج تو اس خطے کے ھیں ،
بابا بولا یہ خطہ کیس کا ھے ؟ ، ھزاروں سال سے اس خطے میں ھندو آباد ھیں ھندووں کی یہ رسم تھی کہ شادی سے دو دو مہینے پہلے رشتے دار شادی والے گھر میں ڈیرے ڈال لیا کرتے تھے ،
لڑکی کو مہینہ پہلے مایوں بیٹھا دیا جاتا ، اُبٹن ملا جاتا اچھی خوراک کھلائی جاتی تاکہ شادی والے روز خوب روپ چڑھے ،
رُخصتی سے پہلے تک لڑکی کو چُھپاکے رکھا جاتا ،،
پھر شادی تک خوب ڈھولکی پیٹی جاتی ، یہ اعلان ھوتا تھا کہ رام داس ولد فلاں کے گھر بارات آنے والی ھے ، پھر تیل مہندی ھوتی ،
جلیبی جلوہ پوری بھاجی ،مٹھائی دودہ اور لذیذ کھانوں سے مہمانوں کی آؤ بھگت کی جاتی ، بارات کے روز لڑکے کی ماں اور رشتہ دار عورتوں کو چڑھاوے اور پہناؤنیاں دی جاتیں ، طرح طرح کے پکوانوں سے لڑکے والوں کی سیوا کی جاتی ،،
میں نے کہا آپ ٹھیک کہتے ھیں پر کیا یہ سب غلط ھے ؟
بابا بولا کیا اسلام میں اس سب کی گُنجائش ھے ؟؟
میں نے کہا کہ نہیں ،،
بابا بولا پھر ھم ھوئے نہ کرم کے ھندو ؟؟
میں چُپ رھا ،، بیٹا ھندو کی ان رسموں کے پیچھے تکبُر اور اُن کے دھرم کی مجبوری کارفرما ھے ،،
وہ کیسے ؟ میں نے پوچھا ؟
بابا بولا ،، پہلی بات تو دکھاوا ،،
کہ دیکھو رام داس نے کیسے درجنوں رشتہ داروں کی سیوا کی ھے ،اور بھاری جہیز اس لئے دیا جاتا ھے کہ ھندؤؤں میں باپ کی وراثت میں بیٹی کا حصّہ نہیں ھوتا ،
ھم نے ھندووں سے جہیز دینا سیکھا ، جب کے ھمارے یہاں باپ کے ترکہ میں بیٹی کا حصّہ ھوتا ھے جو ھم نہیں دیتے ،،
میں غور سے بابا کی باتیں سُن رھا تھا ،
بابا نے پوچھا بتا سکتے ھو رُخصتی کے وقت دُلہن بابُل کے گھر سے نکلتے وقت پیچھے کی جانب گندم یا چاول یا میوے بتاشے کیوں اُچھالتی ھے ؟
میں نے جلدی سے جواب دیا ھاں ،، اس لئے کے جس جس کنوار ے یا کنواری کی جھولی میں وہ گندم ، چاول یا بتاشے جتنی تعداد میں گریں گے اُن کو اُتنی ھی خوشیاں نصیب ھونگی ،،
بابا نے پوچھا یہ بات تمھیں کسے معلوم ھوئی ؟
مین نے بتایا کہ اماں کہتی ھیں ،،
بابا نے پیٹ بھر قہقہہ لگایا ، بولا ، صدیوں پہلے امیر ھندؤؤں نے یہ رسم شُروع کی اور مقصد تھا گاؤں والوں اور رشتہ داروں کو یہ بتانا کہ ،،
دیکھو اتنے دن تھمیں کھلا پلا کے بے تحاشہ جہیز دیکر بھی اس گھر میں اتنا رزق موجود ھے کے میری بیٹی لُٹا رھی ھے ، پھر بھی ھمارا مال ختم نہیں ھوا ،،
میری آنکھیں خہرہ ھو گئیں ، میرے لئے یہ بات بلکُل نئی تھی ،
بابا نے مزید بتایا کہ بعد میں اس رسم کا مطلب یہ لیا جانے لگا کہ ،، بابُل جو کھایا تھا واپس کر کے جارھی ھوں ،،
میں نے جھٹ سے کہا کہ ھمارے یہاں تو یہ رسم عام ھے ،،
بابا مُسکُرایا ،، میں نے کہا تھا نہ کہ ھم کرم کے ھندو ھیں ،،
میں کھسیانہ سا ھو گیا ،،
جانتے ھو اسلام میں شادی کے لئے کیا حُکم ھے ؟ بابا نے سوال کیا ،
ھاں صرف نکاح اور رُخصتی ، نہ مہندی نہ مایوں نہ بارات کا کھانہ نہ سلامی اور نہ جہیز ، میں نے اپنے علم کا مُظاھرہ کیا ،،
بابا نے جھلا کے پوچھا ،بھائی اگر یہ سب جانتے ھو تو کرتے کیوں نہیں ؟؟ کیوں شادی کو اسقدر مُشکل بنا رکھا ھے ؟؟ کیوں لڑکی کے باپ کو قرض لینے پر مجبور کرتے ھو؟ میں سر جھُکائے بیٹھا تھا ،،
بابا بولا کیوں حق مہر مُقرر کرتے وقت دُلہا کے ماں باپ کی جان کیوں نکل جاتی ھے ؟ ھندووں کی سب رسمیں پوری کرتے ھو اور اسلام کا حُکم پورا کرتے موت پڑ ھے ؟،کیسے مُسلمان ھو ؟، پانچ ھزار حق مہر میں لڑکی لے جاتے ھو ؟
بابا کے چہرے پر غُصہ عیاں تھا ،، بولا الله قُرآن میں کہتا ھے ، اگر تم نسلی اور خاندانی عورت سے نکاح کرنا چاھو تو جو وہ عورت مانگے اُتنا مہر ادا کرو اور اگر تم مہر دینے کی سکت نہیں رکھتے تو پھر لونڈیوں سے نکاح کرو ،،
میں فٹ سے بولا کہ حق مہر تو لڑکے کی حثیت کے مطابق ھونا چاہئے اور لڑکے کو ہی مقرر کرنا چاہئے،
بابا دین محمد غصے سے بولا نہیں، حق مہر لڑکی ڈیمانڈ کرے گی اس سے لڑکے کی حثیت کا کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر مطلوبہ مہر دینے کی استطاعت نہیں ہے تو کوئی کم حثیت لڑکی تلاش کرو،
میں لاجواب ھوچُکا تھا ،،
میں نے جُرات کر کہ کہا بابا جی مایوں مہندی بارات کا کھانہ اور جہیز کے بغیر ھمارے مُعاشرے میں شادی نہ مُمکن ھے اب ،،
وہ بولا پھر ھوئے ناں ہم کرم کے ہندو؟ پھر التجایہ لہجے میں بولا
بچے مُڑنا تو تم نے ھے نہیں ، چلو اتنا کر لو ،
جو دس پندرہ لاکھ روپے بے چارہ لڑکی کا باپ جہیز پر خرچ کرتا ہے اُتنا ھی مہر مُقرر کر دیا کرو لڑکی کا ؟ ،،
میں نے کہا بابا یہ نامُمکن ھے ،،
بابا کھڑا ھو گیا ،، کہنے لگا بھائی ھم ان رسومات کو اپنا چُکے ھیں .
اور ھم یہ سب کُچھ اس لئے کرتے ھیں کے ھماری ناک نہ کٹ جائے خاندان میں ،
میں نے کہا ھاں ،
وہ بولا یہ ناک کا نہیں اناّ کا تکبُر کا مسلہ ھے ،،
اور تکبُر نے شیطان کو مروادیا ،، بھائی ھم کرم کے ھندو ھیں ،،
میں نے کھڑے ھوکر بابا سے معافی مانگی ، بابا نے میرے سر پے ھاتھ پھیرا اور چلا گیا
Comments
Post a Comment