Khan Se Jurri Yadain, Episode 3, By Iftikhar Iffi Sahab | PM Pakistan Imran Khan | Memories Related to Imran Khan By Iftikhar Iffi Sahab


قسط نمبر 3


مجھے بہت افسوس ہوا جب توقیر کی والدہ محترمہ گزر گیں ۔ اسی دوران ہمیں پتہ چلا کہ عمران خان نے سیاست شروع کر دی ہے ۔ ہم پہلے ہی ناراض تھے سو عمران خان کی کسی بات پر کان نہ دھرا ۔

اکثر مال روڈ سے گزتے دیکھتے تھے کہ ہائی کورٹ یا ریگل چوک میں ایک ٹرک پر سورا عمران خان چند ورکرز کے ساتھ احتجاج کرتے نظر آتے ۔ اگر وقت ھوتا تو ہم رک کر عمران کی تقریر سن لیتے بصورت دیگر گزر جاتے ۔
ایک روز کسی چینل پر خان کی تقریر سنی وہ کہہ رہا تھا کہ "مجھے حکومت نہیں بنانی میں نے ایک پریشر گروپ بنایا ہے جیسے یورپ میں ھوتا ھے کہ پریشر گروپ حکومت وقت کو اس کی غلط پالیسیوں کا احساس دلاتا رہتا ہے "
ہمارے لئے یہ بات بےمعنی تھی ۔ ہم نے عمران خان کی اس منطق پر کان نہ دھرا ۔
98 میں میری چھوٹی پھوپھی کو کینسر ھوگیا ۔ پہلی بار سخت تکلیف سے گزرا ۔ اس بار بھی شوکت خانم ہسپتال نے میری پھوپھی کا کیس نہ لیا ۔ میں پہلے ہی عمران خان سے ناراض تھا پھوپھی کی موت کے بعد اور زیادہ غصہ مجھ میں بھر گیا ۔



اکثر بابا اشفاق احمد کے منہ سے عمران خان کی تعریف سنتے مگر کچھ کہتے نہیں تھے ۔ کیونکہ یہ نفس کی نفی کا سبق روز سنتے تھے تو بابا اشفاق احمد نے قدغن لگا رکھی تھی کہ کسی کی برائی نہیں کرنی ۔ ہم بھی عمران خان کے ذکر پر خاموش ھوجاتے ۔ پرویز مشرف کا دور شروع ھوچکا تھا ۔

ہم نواز شریف کے این آر او کے بعد مسلم لیگ چھوڑ چکے تھے ۔
مشرف کا دور بہت طوفانی تھا ۔ پاکستان کو ایک ساتھ بہت سے چیلنجز کا سامنا تھا ۔ یہ وہ وقت تھا جب قوم کو ایک ھوکر حکومت کو سپورٹ کرنا تھا سو ہم مشرف کے طرفدار ھوگئے ۔ شوبز میں کچھ کچھ کام ملنا شروع ہوچکا تھا ۔ کچھ پہچان بن چکی تھی ۔ کاشف نثار کے ڈرامے " قبضہ " سے اتنی شہرت ھوگئی کہ اکا دکا لوگ آٹو گراف لینے لگے ۔ ہم طے کر چکے تھے کہ اب کبھی کسی سیاسی جماعت کو سپورٹ نہیں کرینگے ۔ ابھی مشرف کے خلاف تحریکیں عروج پر تھیں ۔ اور بےنظیر قتل ھوئی تھی ۔ کہ میری خالہ ساس کو کینسر ھوگیا ۔ پہلی اسٹیج تھی ۔ میری خالہ ساس کے گھر والے ان کو شوکت خانم ہسپتال میں داخل کروانا چاہتے تھے ۔ میں نے ان کو منع کردیا ۔ کہ وہ ہسپتال صرف امیروں کے لئے ہے ۔اور عمران خان بارے جو الٹا سیدھا بول سکتا تھا بول آیا ۔

انہی دنوں مشرف چلا گیا اور پی پی پی کی حکومت آگئی ۔ ہمارے دوست کاشف محمود ۔ نور الحسن اور ڈائریکٹر امین اقبال ہمیں پی ٹی آئی کی طرف راغب کررہے تھے ۔ بابا اشفاق احمد کے انتقال کے بعد ہم داستاں سرائے میں ھونے والی ادبی نشست میں جایا کرتے ۔ ایک روز بانو قدسیہ آپا کے منہ سے عمران خان کی تعریف سنی ۔ ہم بہت حیران ھوئے۔
اب کیوں کہ بانو قدسیہ آپا نے کہہ دیا تھا تو ہمیں سوچنا تھا ۔ ہم ابھی کوئی فیصلہ نہیں کر پائے تھے کہ ہمیں بیگم نے بتایا کہ اس کی خالہ کو شوکت خانم ہسپتال میں داخلہ مل گیا ہے۔ ہمیں حیرانی ہوئی ۔ اور کچھ عرصے بعد پتہ چلا کہ ہماری خالہ ساس کو اللہ نے شفا دے دی ہے ۔ کیونکہ ہماری خالہ ساس کا کینسر پہلی اسٹیج میں تھا اور شوکت خانم ہسپتال نے ان کو پےانگ کیٹگری میں آکاموڈیٹ کیا اور وہ صحتیاب ھوگئیں ۔ خالہ ساس کی وہ حالت بھی دیکھی تھی جب ان کی کیمو تھراپی ھورہی تھی اور ان کے بال جھڑ چکے تھے ۔ دل گھبراتا تھا اور وہ بےبسی میں رویا کرتی تھیں اور اب تندرست ہونے کے بعد بال بھی اگ ائے تھے چہرے پر خوشی تھی ۔ ان کے منہ سے عمران خان کے ہسپتال کے قصیدے سنکر ہمیں اپنی غلطی کا احساس ھوا

اس کے بعد ہم نے عمران خان کو سپورٹ کرنے بارے سوچنے لگے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ 13 کے انتخابات میں ہم نے تین بار عمران خان سے ملنا چاہا اور تینوں بار ملاقات ھوگئی ۔ ہمیں عمران خان بہت عوامی بندہ لگا اس کی غریبوں کے لئے تڑپ اس کی پاکستان سے محبت اس کی عام آدمی کی عزت نفس کی بحالی کا ایجنڈا اس کی ایک ایک بات دل میں اتر جاتی اور ہمیں لگتا یہ بندہ سچ بول رہا ہے ۔
ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کھل کر کپتان کی حمایت کا اعلان کیا جائے یا نہیں ۔
اسی دوران ایک روز بانو قدسیہ آپا کی کتاب راہ رواں کے ذریعے عمران خان بارے اشفاق احمد صاحب کی رائے ہم تک پہنچی ۔ بانو قدسیہ آپا نے لکھا تھا کہ
"اشفاق صاحب کہتے تھے کہ پاکستان کے عوام کا بالخصوص اور امت مسلمہ کا بالعموم مسلہ عزت نفس کا ھے ۔ ضیا الحق نے اشفاق صاحب کو ایک تقریب میں بلایا وھاں بہت بہت بااثر لوگ موجود تھے اشفاق صاحب نے پہلی بار مسلمانوں کی عزت نفس کا جھنڈا بلند کیا ۔ بابا جی نے فرمایا ھماری ضرورت روٹی کپڑا مکان نہیں ھے ۔ یہ چیزیں تو ھمیں ھندوستان میں بھی جیسے تیسے میسر تھیں لیکن اقلیت ھونے کے ناطے ھماری عزت نفس مجروح ھوتی تھی اسی لئے ھم نے نعرہ بلند کیا تھا پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ


خان صاحب نے شعوری اور لاشعوری طور پاکستان کے لئے اس وقت جدوجہد شروع کی جب قائد اعظم دھرنا دیئے بغیر جیل میں قید ھونے کے بجائے انگریزوں کو آئین کی پاسداری میں گھیر کر پاکستان کا مطالبہ کر رھے تھے ۔ یہ جدوجہد شروع سے آخر تک خان صاحب کا بنیادی مسلک رھی اور بالآخر "عزت نفس " کے مطالبے میں بدل گئی ۔ یہی جھنڈا اشفاق احمد نے اپنے بیٹوں جیسے عمران خان کو دیا ۔ اسی جھنڈے کی سر بلندی کے لئے آج بھی عمران خان سر توڑ کوشش کر رھا ھے اور آج 2007 میں جب تمام جماعتیں اپنے مفادات کےلئے لڑ رھی ھیں اور بظاھر اسے خلقت کی خدمت کا نعرہ عطا کر رھی ھیں،عمران خان اپنی نامزدگی کے کاغذات پھاڑ کر دعوی کر رھے ھیں
اقتباس ۔ راہ رواں


ہم اس تحریر کو پڑھنے کے بعد عمران خان کے معتقد ھوگئے۔ باقائدہ پی ٹی آئی کی رکنیت لی اور عمران خان کی جیت کے لئے دن رات ایک کردیا ۔
13 کے انتخابی مہم کا آخری جلسہ شاہدرہ موڑ پر ھونا تھا اور ہمارے سسرال کے گھر کی دوسری منزل کو اسٹیج بنایا گیا تھا شاہدرہ کی سیاسی اور بااثر شخصیات ہمارے سسرال کی چھت پر جمع تھیں خان کے استقبال کی بھر پور تیاریاں مکمل تھیں کہ عمران خان کا کنٹینر آیا خان نے بجائے ہماری سسرال کی چھت پر آکر خطاب کرنے کے کنٹینر ہی سے خطاب کیا اور چلتا بنا ۔ ہمیں بہت غصہ آیا ۔ ہمارا اتنا خرچہ ھوگیا انتظامات کے علاوہ کھانے کی دیگیں بھی ضائع گئیں ۔ ہم گاڑی میں اپنے ہمنوا شاھان کو لیکر نکلے اور زمان پارک عمران خان کے گھر پہنچ گئے ۔ ارادہ تھا کہ عمران خان کو ھونے والے مالی نقصان اور حلقے میں خراب ھونے والی ساکھ سے آگاہ کریں گے ۔
عمران خان کے گھر کے باہر چند گاڑیاں کھڑی تھیں اور صدر دروازے پر صرف دو پولیس والے بیٹھے سیگریٹ نوشی کررہے تھے ۔ ہم گاڑی سے اترے اور پولیس والوں سے کہا کہ ہمیں عمران خان سے ملنا ہے ۔ پولیس والوں نے ہمیں اندر جانے دیا ۔

یہ رات 3 بجے کا وقت تھا۔ میں اور شاھان عمران خان کے گیٹ سے داخل ہوئے کار پورچ سے ھوتے ھوئےلان سے گزر کر رہائشی عمارت کے دروازے تک پہنچے ۔ دروازہ بند تھا۔ شاھان نے کہا افی صاحب واپس چلیں میں نے جواب دیا یار ہمارا اتنا پیسہ لگ گیا ۔ محلے بھر میں رسوائی الگ ھوئی عمران خان کے علم میں یہ بات لانی ضروری ہے کہ انصاف کا نعرہ لگانے والے نے ناانصافی کی ہے یہ کہتے ہی میں نے رہائشی عمارت کا دروازہ کھولا تو اندر سے بچوں اور عورتوں کی آوازیں سنائی دیں ۔ ہم پریشان ھوئے کہ چھڑے چھانٹ کے گھر میں عورتوں اور بچوں کی آوازیں؟؟؟
خیر ہم نے اندر جانا مناسب نہ سمجھا اور تیزی سے لان سے گزرتے ھوئے کار پورچ سے ھوتے باہر آئے گاڑی اسٹارٹ کی اور لکشمی چوک پہنچ کر ڈال کی ٹکیاں کھائیں ۔ کھانے کے بعد خیال آیا کہ بم دھماکوں کا سیزن ہےاور ہم عمران خان کے گھر کے اندر گئے اور کسی کو ملے بغیر واپس آگئے خدا نہ کرے کل کلاں کو کوئی نقصان ھوگیا تو سی سی ٹی وی فٹیج میں تو ہم نظر آئیں گے اور پوچھا جائے گا کہ رات کے تین بجے ہم وہاں کیوں گئے تھے؟

بہت پریشانی ھوئی ۔ ہم نے گاڑی اسٹارٹ کی واپس عمران خان کے گھر زمان پارک پہنچے گیٹ پر موجود پولیس والوں کو پورا واقعہ سنایا ۔ کچھ دیر پولیس والے کے ساتھ گپیں لگائیں چھ سگریٹس ان کو پلائے اور اعتماد کی فضا قائم کرکے اذان کے وقت وہاں سے نکل آئے ۔ یہ واقعہ سنانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ایک شخص جو ایک پارٹی کا سربراہ ہے ۔ وزیراعظم بننا چاہتا ہے ۔ دنیا کا ہیرو ہے اس کے گھر دو اجنبی لوگ رات کے 3 بجے اندر جا کر واپس آجاتے ہیں اور کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی؟

یہاں تو آپ ایک کونسلر کے گھر کے اندر دن میں بھی داخل نہیں ھوسکتے ۔
ایسا درویش ہے کپتان خان



اللہ ہمیں آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے 
آمین ثم آمین


Comments