ہم اکثر آپ کے دل کے فسانے جان لیتے ہیں
ہم اپنی رائے اور تاکید سے پرہیز رکھتے ہیں
سنائیں آپ کوئی بھی کہانی مان لیتے ہیں
محبت آزمائش ہے محبت میں سرِ محفل
ہم اپنے نام سارے آپ کے بہتان لیتے ہیں
غزل کہنی ضروری ہے تو کیوں یہ ہجر ہی لازم
اُداسی گر قریب آئے بُرا لگنے لگے موسم
خیالِ یار سے مہکی سی چادر تان لیتے ہیں
دُکانِ زندگی میں غم ؛ خوشی یکساں میسر ہیں
مگر ہم آپ کی خاطر فقط مسکان لیتے ہیں
سخن میں کوئی ہو مشکل ؛ کوئی مصرع اٹک جائے
تو ناصر کاظمی کا ہم سحرؔ دیوان لیتے ہیں
Comments
Post a Comment