Tumheen Yaad Ho Keh Na Yaad Ho......, By Saeed Ashar Sahab

وحید قریشی سے جب میری پہلی ملاقات ہوئی ان کی مونچھیں پوری طرح نہیں آئی ہوئی تھیں۔ پھر ان کی مونچھیں اور داڑھی دونوں آ گئیں۔ اس قدر آئیں کہ منہ چھوٹا لگنے لگا۔ ایک بار سوزوکی میں پیچھے بیٹھے ہم دونوں کہیں جا رہے تھے ایک خوبصورت لڑکی سوار ہوئی۔ اس نے وحید قریشی سے کہا۔
"بابا جی ساتھ ہو جائیں۔"
میرے منہ سے بھی بے اختیار نکلا۔
"ابا جی ذرا آگے ہو جائیں۔"
کسی سواری کو تعجب نہیں ہوا۔
شروع سے زود رنج، دانش ور اور صاحبِ کردار ہیں۔ جو کہہ دیا حرفِ آخر ہے۔ دس پروفیسر بھی پھر انھیں قائل نہیں کر سکتے۔ ایک بار بڑے مزے میں تھے۔
مجھے فرمایا۔
"شروع شروع میں، میں آپ کو بہت بڑا شاعر سمجھتا تھا۔"
کالج کا زمانہ تھا ایبٹ آباد پوسٹ گریجویٹ کالج کے بورڈنگ ہاؤس میں ہم اکٹھے رہتے تھے۔ بی ایس سی کے تین لڑکے ہر وقت ہمارے گروپ میں رہتے۔ ان میں سے ایک کی صورت، آواز اور باتیں بہت ہی معصوم تھیں۔ وحید قریشی اس کو جنوں، بھوتوں اور ڈائنوں کے قصے سناتے۔ وہ پریشان ہوتا۔ ان کو مزہ آتا۔ بورڈنگ ہاؤس کی مشرقی سمت کالج کا گراؤنڈ اور شمالی سمت ایک نالہ ہے۔ ایک بار وحید قریشی رات بارہ بجے کے قریب نالے کے پاس چھپ کر انتہائی باریک باریک زنانہ آواز میں پکارنے لگے۔ "نصیر۔ نصیررر۔"
ہمارے اس معصوم دوست کا نام نصیر تھا۔ نصیر پوری رات اپنے کمرے میں کانپتا رہا۔ دوسرے روز ہم پانچوں دوست اور مزید تین چار دوست ایک ہی کمرے میں بیٹھے نصیر کی زبانی پچھلی رات کی کتھا سن رہے تھے۔ وحید قریشی کو بڑا مزہ آ رہا تھا۔ پھر تو حد ہی ہو گئی۔ وحید قریشی کہیں سے سفید دوپٹہ لے آئے۔ اندھیری رات تھی۔ کمروں کی کھڑکیوں سے ہلکی ہلکی روشنی چھن کر باہر آ رہی تھی۔ میں باہر کالج کے گراؤنڈ میں دوپٹہ اوڑھے کسی بدروح کی طرح ناچنے لکھا۔ ساتھ ہی آواز لگاتا۔
"نصیررر۔ نصیررر۔"
سب دوست کھڑکیوں سے باہر بدروح کو ناچتا دیکھ رہے تھے۔ وحید قریشی کی روح بہت راضی ہوئی۔ میں کیا کرتا۔ وحید قریشی کے سامنے انکار نہ کر سکا۔
ہری پور کی سب سے فعال ادبی تنظیم بزمِ لوح و قلم آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوتی گئی۔ ہمارا نوجوانی کا ابلتا ہوا خون بھلا ہمیں کہاں ٹک کر بیٹھنے دے سکتا تھا۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لئے میں، پروفیسر وحید قریشی، پروفیسر راجا ریاض الرحمٰن، افسر منہاس۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد سفیان صفی اور ظفر ندیم ایک جگہ سر جوڑ کر بیٹھے۔ نئی تنظیم کا نام کاروانِ ادب ہزارہ تجویز ہوا۔ مجھے ناظم اور سفیان صفی کو صدر منتخب کیا گیا۔ پہلا پروگرام لالہ احسان قریشی کے ہوٹل میں منعقد ہونا طے پایا۔ جنرل ضیاء الیکشن کے نوے دن کے وعدے سے منحرف ہونے کے بعد بھٹو کو تختہِ دار پر چڑھانے کی تیاری میں جٹا ہوا تھا۔ ایسے میں کسی نے خفیہ والوں کے کان میں پھونک دیا کہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے چند شرپسند حکومت کے خلاف کسی سازش کی پلاننگ کر رہے ہیں۔ انھوں نے ہماری نگرانی اور تعاقب شروع کردیا۔ لالہ احسان قریشی کے پسینے چھوٹ گئے۔ اس نے عین آخری لمحات میں جگہ دینے سے انکار کر دیا۔ کاروانٍ ادب کا پہلا اجلاس وحید قریشی کی بیٹھک میں ہوا۔ محترم ریاض ساغر نے ہماری حوصلہ افزائی فرمائی اور شرکت کی۔ خفیہ والے بیٹھک کی کھڑکیوں سے اندر کی سن گن لینے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک تو روشن دان سے چپکا ہوا تھا۔ ظفر ندیم ان کو اندر لے آیا۔ پروگرام ختم ہونے کے بعد انھوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کی وجہ سے ہمارا پورا مہینہ برباد ہوا۔ بعد میں کاروانِ ادب کے پروگرام سالہا سال تک گورنمٹ ہائی سکول نمبر 1 ہری پور میں باقاعدگی سے ہوتے رہے۔ جن میں صوفی عبدالرشید، پروفیسر محمد ارشاد، قتیل شفائی، آصف ثاقب، سلطان سکون، یحیٰی خالد، مقبول کاوش اور نیاز سواتی جیسی ہستیوں نے شرکت کی۔ بارش ہونے کی صورت میں پروگرام میں حاضرین ایک فی صد رہ جاتی۔ وحید قریشی بھاگتے ہوئے جاتے اور اپنے دو تین بھائیوں کو لا کر کرسیوں پر بٹھا دیتے۔
وحید قریشی کبھی کبھار ایک آدھ شعر یا نظم کی دو چار لائینیں کہتے ہیں لیکن کمااااال کہتے ہیں۔ مجھے ہمیشہ ان کا ہر شعر اور ہر نظم پسند آئی۔ حافظہ کمزور ہونے کے باوجود ان کے اکثر شعر یاد رہ جاتے۔ میری بدبختی جاگی وحید قریشی کا ایک شعر فیس بک پر شیئر کر دیا۔ پھر کیا تھا وحید قریشی نے کچہری لگا لی۔ سرزنش کرتے ہوئے کہا۔
"سعید صاحب آپ کو پتہ ہونا چاہیے مجھے اس طرح کی حرکتیں پسند نہیں۔"
کانوں کو ہاتھ لگا کر معافی مانگی۔ وقت گزر گیا کیا دیکھتا ہوں کسی نے وحید قریشی کا کوئی شعر پوسٹ کیا ہے۔ حضرت نے نہ صرف اسے باقاعدہ شیئر کیا بلکہ اپنی آل اولاد کو بھی ٹیگ کیا ہوا تھا۔ میں سمجھ گیا۔ تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آ چکی ہے۔ اس بار پاکستان آیا تو اقبال قمر سے ملنے جہلم بھی گیا انھوں نے محبت کے اظہار کے لیے باقاعدہ ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ جس میں سید انصر، اقبال ناظر، مرزا سکندر بیگ، قمر شہزاد اور صدیق سورج صاحبان جیسی خوبصورت ہستیوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ سورج صاحب نے فریایا۔
"سعید صاحب آپ کا یہ شعر تو بہت ہی بے مثال ہے۔"
پھر انھوں نے وحید قریشی کا ایک شعر سنا دیا۔ میں نے ایمانداری کا تقاضا پورا کرتے ہوئے سب کو بتا دیا کہ شعر کس کا ہے۔ کسی نے نہیں سنا۔ شاید آواز دھیمی تھی۔
کافی عرصہ پہلے ہری پور میں دو سینما گھر تھے جن پر جب بھی کوئی دنگے باز پنجابی فلم لگتا۔ وحید قریشی فلم دیکھنے کے لئے مجھے ساتھ ضرور لے کر جاتے۔ فلم کے دوران اس طرح سیٹیاں بجاتے کہ پھُو کی آواز آتی۔ لوگ ہنستے۔ ہم دونوں لوگوں کی ہنسی پر ہنستے۔ ہم نے آخری فلم جو ساتھ دیکھا ہمارے ساتھ ڈاکٹر ضیاء الرشید بھی تھے۔ ڈاکٹر تو وحید قریشی سے بھی سو ہاتھ آگے ہیں۔ پتہ نہیں کون سا فلم تھا۔ ہم تینوں گیلری کی پچھلی سیٹوں پر بیٹھے گولڈ لیف سگریٹ کے سوٹے مار رہے تھے۔ کہانی تھوڑی سی کھلی تو وحید قریشی نے پہلی پھُو کی۔ پورے ہال نے قہقہے لگائے۔ کچھ نے جواب میں اصلی سیٹیاں بجائیں۔ وقفے وقفے سے یہ سلسلہ جاری رہا۔ اچانک ہیرو کے بھائی کی چند غنڈوں نے پٹائی شروع کر دی۔ وحید قریشی نے پھُو کر دی اور ڈاکٹر نے ساتھ نبھاتے ہوئے سیٹی بجا دی۔ میرے منہ سے قہقہے ابل پڑے۔ پورا ہال چارج ہو گیا۔ جونہی ہیرو نے دس بارہ غنڈوں کو زمیں بوس کرنے کا عمل شروع کیا پورا ہال سیٹیوں سے گونج اٹھا۔ تالیاں تھیں کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ آگے والی سیٹوں پر بیٹھے ہوئے کچھ لوگوں نے ہماری طرف فاتحانہ نظر سے دیکھا۔ کچھ دیر تک ہم اپنی سیٹوں پر دبکے موم پھلیاں کھاتے رہے۔ ولن کب ہار ماننے والا تھا۔ اس نے ہیرو کی بہن اغوا کر لی۔ وحید قریشی کے مردے میں جان پڑ گئی۔ اس بار انھوں نے تین بار پھُو کی۔ ڈاکٹر نے اوپر سے پٹرول چھڑکا۔ سیٹیاں بجانی شروع کر دیں۔ میں بھلا پیچھے کیوں ہٹتا۔ جواب میں ہال کے کسی حصے سے خوفناک گالیوں کے راکٹ فائر ہونے شروع ہو گئے۔ قریب بیٹھے لوگوں نے بھی قہر آلود نظروں سے ہمیں دیکھا اور کچھ بڑبڑائے۔ دانائی اسی میں تھی ہم اسی وقت چپکے سے سیمنا ہال سے باہر آگئے ایسے میں کون انتظار کرتا کہ ہیرو کی بہن کن حالات میں گھر واپس پہنچی۔
وحید قریشی پیدائشی بائیں بازو کے ترقی پسند ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنے نظریے کو فیشن کے طور پر نہیں اپنایا ہوا۔ وہ اس فکر کے ایک عظیم دانش ور ہیں۔ ان کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ اپنے نظریے کے دفاع پر مکمل دسترس رکھتے ہیں۔ لیکن شدت پسند نہیں۔ ہری پور میں انجمن ترقی پسند کا احیاء کیا تو مجھے نائب صدر بنوانے میں وحید قریشی پیش پیش تھے۔ حالانکہ معروف معنوں میں میں ترقی پسند بھی نہیں۔ ان کے نزدیک میں رومانویت، وجودیت اور جدیدیت جیسی خطرناک بیماریوں کا ناقابلِ علاج مریض ہوں۔ صاحبِ مروت ہیں۔ ان کے شعور کے کسی گوشے میں رہ گیا ہوگا کہ کالج کے زمانے میں ہر جمعرات کی صبح میں اسلامی جمیعت طلبہ کا درس سننے کے بعد شام کے وقت ایبٹ آباد کچہری میں ان کے ساتھ پی ایس ایف کے لئے چندہ اکٹھا کرتا تھا
وحید قریشی اور میرا ساتھ کئی دہائیوں سے ہے۔ اگر میں ایم اے اردو ہوتا تو ان کی شخصیت کے خفیہ گوشوں پر آسانی کے ساتھ ایم فل کر سکتا تھا۔ موقع محل کی مناسبت سے اختصار سے کام لیتا ہوں۔ جاتے جاتے ایک اور واقعہ سن لیں۔
ہم دونوں کا یہ مہمول تھا عصر کے بعد شہر کی کسی ایک سڑک پر آوارہ گردی کرتے۔ مغرب کے وقت ہم پوسٹ آفس کے سامنے پہنچ جاتے۔ پوسٹ آفس کے کارنر پر کھڑا ایک ملنگ روزانہ تجاہلِ عارفانہ سے ہمیں دیکھتا۔ وہاں سے ہمارے راستے جدا ہو جاتے۔ وہ لیڈی گارڈن کی طرف چلے جاتے اور میں مین بازار سے ہوتا ہوا اپنے گھر کی طرف چل پڑتا۔ اس دن ایسا نہیں ہوا۔ دونوں میں سے کسی ایک نے کہا۔
"آؤ بابا جی سے کچھ بات کرتے ہیں"
ہم اس ملنگ کے پاس پہنچ گئے۔
"بابا جی کوئی ایسی بات بتائیں جو زندگی بھر ہم بھول نہ پائیں"
اس نے صرف اتنا کہا۔
"دال لام دل"
پھر وہ ملنگ کبھی نظر نہیں آیا۔
اس دن سے پوسٹ آفس کے اس کارنر پر میں اکیلا کھڑا ہوں۔




Comments