Afsana Dumm, By Miss Sara Ahmad Istiaara Digest


میرا افسانہ ' دَم ' 

سہ ماہی "استعارہ" لاہورشمارہ : 2 


مدیران ڈاکٹر امجد طفیل صاحب ریاظ احمد صاحب



درِ دل پہ جیسے دستک ہوئی تھی لیکن یہ تو بارش کے چھینٹے تھے جو برآمدے میں اخبار پڑھتے ہوئے ان پر پڑے تھے- "اوہ پھر بارش شروع ہو گئی-" انہوں نے اخبار تہہ کرکے میز پیچھے کھسکا لی- دسمبر کا وسط تھا- سردی بڑھ گئی تھی لیکن اس بار وہ جیسے اس موسم سے کوئی پرانی آشنائی نبھا رہے تھے- رات سونے سے پہلے اپنے کمرے میں نہیں جاتے تھے- برآمدے میں ہیٹر لگا کر وہیں مطالعہ میں اپنا وقت کاٹتے- آج تیسرا دن تھا- وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ جاری تھا- انہوں نے برآمدے سے باہر آسمان کی طرف دیکھا- بدلیوں میں کہیں کوئی روزن نہیں تھا جہاں سے سورج کی کوئی کرن زمین پر جھانک سکتی- سورج آسمان پر ہی تھا اور بدلیوں نے اس پر آڑ کر رکھی تھی- جیسے ان کے سینے میں دل تھا مگر ماضی کی یادوں نے اس کی دھڑکنوں کو جکڑ رکھا تھا- بارش نے ان کے چہرے کو بھگو دیا تو پیچھے ہٹ کر برآمدے میں اٹھائی ہوئی چک کو نیچےگرا دیا اور کرسی سے تولیہ اٹھا کر اپنا چہرہ خشک کرنے لگے- کمر جھک گئی تھی- ہاتھوں میں لاٹھی آ گئی تھی- چشمے کے دور ونزدیک کے دونوں نمبر بڑھ گئے تھے- یاداشت آج کے دن کی باتیں محفوظ کرنے سے انکاری تھی مگر برسوں پہلے کی باتیں ازبر تھیں جیسے وقت نے اپنی گرد ان پر نہیں جمائی بلکہ انہیں وہیں امانتاً دفنا کے آگے بڑھ آیا تھا- بات بھی سچی تھی - وقت نہ کبھی تھما ہے اور نہ تھکا ہے- وہ عمر کے اس موڑ پر اپنی یادیں سانسوں سے اتار کر کہاں رکھتے؟ جسم شکستہ تھا اور روح ان کے بوجھ سے بوجھل تھی- شام ہونے کو تھی- چائے کی طلب میں اپنے جوتے گھسیٹتے باورچی خانے کی جانب چل دیے- رستہ ابھی باقی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی- "اوہ ہو اسوقت کون آگیا، سکون نام کی کوئی شے نہیں لوگوں کی زندگی میں-" بڑبڑاتے ہوتے ہوئے برآمدے کی چک اٹھا کر آواز لگائی، "آجاؤ بھئی جو کوئی بھی ہے، دروازہ کھلا ہے- "
گھر میں ان سمیت سب سامان پرانا تھا- بقدر ضرورت پچھلے وقتوں کی اچھی لکڑی کا بھاری فرنیچر تھا- انہیں آلتو فالتو چیزوں سے بھرا تنگ گھر پسند بھی نہیں تھا- نقدی گھر پر رکھتے نہیں تھے- آجکل ان کے مصرف میں دو مہنگے موبائل تھے- ایک اسوقت ان کی جیب میں تھا اور دوسرا ایک محفوظ جگہ پر ، جس میں نیٹ کی سہولت موجود تھی- گھر کے اندر داخل ہونے والی ایک تیئیس چوبیس سال کی لڑکی تھی جس کی گود میں سال بھر کا روتا بسورتا ایک بچہ تھا جو اس سے بہل نہیں پا رہا تھا-
"کیا بات ہے ، کون ہو ، کیا چاہیے بھئی؟" ایک ہی سانس میں انہوں نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی-
"یہ میرا بچہ ہے ، بہت ضد کرتا ہے ، اسے پھونک مار دیں جی-"


لڑکی بمشکل بچہ اور چھتری سنبھالے ہوئے تھی- چھتری پر گرتی بارش کی بوندوں کا شور سن کر بچہ کبھی چپ کرجاتا اور کبھی اس کی گرفت سے نکلنے کے لیے بے قابو ہونے لگتا- "لاحولاولاقوۃ"، انہوں نے بلند آواز سے کہا اور مزید بحث اور بچے کی ریں ریں سے بچنے کے لیے اسے برآمدے میں آنے کا اشارہ کیا- اپنی آنکھیں بند کیں، منہ میں کچھ پڑھا اور بچے پر پھونک ماری- بچے نے پھونک پر اپنی آنکھیں جھپکیں اور رونا بھول کر ان کے چہرے کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا- سُرخ وسفید باریش چہرہ جو اس لڑکی کی بے وقت آمد پر مزید لال ہو گیا تھا- "دیکھا، میری امی ٹھیک کہتی تھیں آپ کے دم کرنے سے سے یہ چپ ہو جائے گا ورنہ دو دن سے اس نے اپنے منہ میں زبان نہیں ڈالی-"
انہوں نے اپنی نگاہیں چرا لیں اور "اچھا اچھا، ٹھیک ٹھیک ہے اور اب جاؤ بچے کو ٹھنڈ لگ جائے گی"، کہہ کر باورچی خانے کی طرف چل دیے-
شمسہ بھی ان کے پیچھے پڑ جاتی تھی، "نہیں ناں آپ کو میری قسم کچھ پڑھ کر دم کریں ، سر بہت دُکھ رہا ہے-" اسی نے محلے میں یہ بات مشہور کر رکھی ہو گی کہ میرے میاں کی پھونکوں میں بڑا اثر ہے- کم فہم عورت اس عمر میں داماد کے پاس جا کر امریکہ بیٹھ گئی- چائے کی پیالی سے گرم اسوقت ان کے دماغ کو اتھل پتھل کرتی سوچیں تھیں- اکلوتا بیٹا تھا جو تعلیم مکمل کرتے ساتھ ہی آسڑیلیا بھاگ گیا تھا- انہوں نے ان ماں بیٹے کی بات باہر برآمدے میں سن لی تھی- 

"بس کریں امی یہ ہم تھے جنہوں نے ابو کے ساتھ گزارہ کیا کوئی باہر والی آکر نہیں رہ سکتی اس ماحول میں-"
اولاد کو ساری دنیا برداشت ہے، نہیں ہے تو ایک باپ- انہیں تو خود میں کہیں کوئی خامی نظر نہیں آتی تھی- اچھا کھلایا پلایا تھا- من چاہے اداروں میں تعلیم دلوائی تھی اور من پسند جگہوں پر بیٹا اور بیٹی دونوں کی شادیاں بھی کر دیں تھیں- ذہن ودل منتشر ہونے لگتے تو آبِ زم زم کے چند گھونٹ پی لیتے- خانہء خدا کا دیدار کر آئے تھے- یاد آنے پر بارہا شکر ادا کرتے- 
"اب تو اپنے بیٹے کے ساتھ حج پر جاؤں گی آپ تو بس ہر وقت سوجھے پھولے ہی رہتے تھے وہاں ، ذرا مزا نہیں آیا آپ کے ساتھ-" شمسہ کے طعنے بھی یاد آگئے- ان عورتوں کو تو وہاں جاکر بھی خریداری کی پڑ جاتی ہے- بہت کہا
سب چائینہ کا مال ہے ، ہر جگہ یہی کچھ ہے ، کیا فائدہ جو لینا ہو اپنے وطن سے لے لینا- مگر عقل کی بات تو ان جاہل عورتوں کے دماغ میں سماتی ہی نہیں- کہتی تھی اس ملک کی ہوا تو لگی ہے نا ان سب چیزوں کو- داماد اور بیٹی کے ساتھ اب آزادی سے گھوم رہی ہو گی امریکہ- وہاں کی ہوا سے ناپاک نہ ہو گی اب - لاحولاولاقوۃ کہہ کر انہوں نے اپنے سر کو جھٹک دیا-پتہ نہیں تنہائی میں کیا کیا سوچنے لگے تھے- 
دروازے پر ایک بار پھر دستک ہوئی- انہوں نے جیب سے موبائل نکال کر اسکرین روشن کی اور وقت دیکھا- محمودہ ہی ہو گی- "آجاؤ بھئی"- 
انہوں نے اندر سے آواز لگائی- محمودہ پہلے ہی اندر آ چکی تھی- "بھنڈی گوشت بنا دو اور چائے کے برتن پہلے دھو لینا"- جی اچھا کہہ محمودہ فریج سے سبزی نکالنے لگی- اس کے پیچھے اس کا نو سال کا بچہ چھپا کھڑا تھا- 
"پھر لے آئیں تم اسے"- 
وہ غصہ ہوئے-

"بس بابا جی آرام سے ادھر کونے میں بیٹھ کر اپنا مولوی صاحب کا سبق یاد کرتا رہے گا، وہ کیا ہے جی جاتے جاتے اندھیرا بڑھ جاتا ہے، ساتھ ہو تو کسی کی مجال نہیں چھیڑنے کی"-
انہوں نے کن انکھیوں سے محمودہ کو دیکھا اور پھر سر جھکا کر اندر چلے گئے-ایک تو موبائل کمپنیوں کے میسج ڈیلیٹ کرتے کرتے ان کا کافی وقت صرف ہو جاتا تھا- انہوں نے الماری سے اپنا دوسرا موبائل نکال کر نیٹ آن کیا- شمسہ اس وقت اسکائپ پر ان سے بات کرتی تھی- کرسمس کے دن قریب تھے- بچے خریداری میں لگے ہوں گے- بیٹے نے بھی آسڑیلیا سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ماں کو ملنے امریکہ آنا تھا اور سب نے ایک ساتھ مل کر کرسمس منانا تھی- داماد کے بارے میں سنا تھا کہ شائد وہ ان چھٹیوں میں اپنے والدین کے پاس پنڈی آئے- اب انہیں ملنے لاہور آتا ہے یا نہیں انہیں کیا پتہ، وہ کونسا اپنے خاندان کے لیے اتنا اہم تھے کہ انہیں اپنے ہر پروگرام سے آگاہ رکھا جاتا- بیٹے کے دو بیٹے تھے اور بیٹی کے دو بیٹے اور ایک بیٹی- اپنی اپنی دنیا میں سب خوش تھے- شمسہ بھی خوش ہو گی- اپنی مرضی سے چار دن گزار لے گی وہاں-
"بابا جی دودھ کا ایک کپ اپنے بچے کو دے دوں"-
محمودہ نے توے پر پھلکا ڈالنے سے پہلے ان سے اجازت لی- وہ خاموش رہے- محمودہ ان کی عادت جانتی تھی- اس نے اپنے بیٹے کو دودھ کے ساتھ ڈبل روٹی بھی دے دی-
"میں نماز گھر پر ہی پڑھوں گا- تم کام ختم کر کے چلی جانا"- ان کے آخری رکعت کا سلام پھیرنے سے پہلے ہی وہ اپنا کام ختم کر کے چلی گئی- دعا مانگنے کے بعد انہوں نے باہر کے دروازے کو تالا لگایا اور کھانا کھا کر لیٹ گئے- آنکھوں میں نیند اتر آئی تھی مگر شمسہ یا بچوں میں سے کسی کی کال نہیں آئی- نیٹ بھی بند نہیں کر سکتے تھے نہیں تو محلے میں سے شمس الدین کا ڈرائیور خیریت معلوم کرنے پہنچ جاتا- اتنی فکر تھی تو اکیلا ہی کیوں چھوڑا تھا اور اوپر سے خواہ مخواہ کی ضد کہ ابا جی آپ بھی وہاں آ کر ہمارے ساتھ کرسمس انجوئے کریں- وہ بھلا کیوں اس عمر میں خوار ہوتے- خدانخواستہ اگر وہیں دم نکل جاتا تو بیوی بچوں کا کیا ہے وہیں کی مٹی میں دفنا آتے- مادیت کے اس دور میں جذبوں کی کیا فوقیت- انہیں یوینورسٹی کی انجیلنا یاد آگئی- اس کی سانولی رنگت اور میٹھی آواز کی کشش انہیں اس کے بہت قریب لے گئی تھی- میڈم نور جہاں اور لتا کے گانے جب وہ یونیورسٹی کی کسی تقریب میں گاتی تو ہال میں ونس مور کی آوازوں میں ان کی آواز بھی شامل ہوتی- وہ فنِ مصوری کی کلاس لینے چلی جاتی اور وہ معاشیات میں الجھ کر بھی اس کی آواز کے لوچ کو اپنی سانسوں میں گھلنے سے روک نہ سکتے- اس سے شادی کا بھوت بھی سوار ہو گیا تھا- وہ ان سے زیادہ سمجھدار تھی شائد ، محبت بھری باتیں اور شادی کی پیشکش سننے کے بعد دیر تک ہنستی رہتی مگر مانتی نہیں تھی- ساری رات کروٹیں بدلتے ہوئے اس کی گھنٹیوں کی آواز جیسی ہنسی ان کے کانوں میں بجتی رہتی- محبت شائد پانی کی طرح بے رنگ رہی ہو مگر دسمبر کی بارشوں کے جام اور گیتوں کے سوز میں ڈھل کر نشہ بن جائے تو کہاں اترتا ہے- کرسمس کے دونوں میں وہ ہاسٹل کو خیر آباد کہہ کر اپنے ماں باپ کے پاس چوہڑ کانہ چلی جاتی - وہ اسے خط لکھتے اور وہ ان کا اسکیچ بنانے کے وعدے پر خط لکھنا موخر کر دیتی-

محکمہ تعلیم میں ملازمت ملنے کے بعد اپنے بہن بھائیوں میں ان کا نمبر آنے پر والدین کی مرضی سے اس وقت کے رسم ورواج کے مطابق ان کی شادی ہو گئی- والدین جب حیات نہ رہے تو تینوں بھائی علیٰحدہ رہنے لگے- دونوں بہنیں بھی دوسرے شہروں میں بیاہی گئیں- زندگی اسی ڈگر پر چل نکلی جس میں بحیثیت سربراہ ان کے کھاتے میں ذمہ داریاں ہی تھیں- گھر کا نظم وضبط برقرار رکھنے کے لیے انہیں کبھی درشت ہونا پڑا اور کبھی سرزش کرنا پڑی- اہلِ خانہ کا شائد ان پابندیوں میں دم گھٹتا تھا- انہوں نے بھی تو اپنی آزادی کی ساری کھڑکیاں بند کر دیں تھیں- بچے چھوٹے تھے تو فلمیں دیکھنا چھوڑ دیں- موسیقی سننا بہت کم کر دی - وہی وقت انہیں گھر پر پڑھایا کرتے تھے- ٹیوشن کا تصور ان کے زمانے میں محال تھا تو پھر اپنے بچوں کو گیس پیپرز اور شارٹ کٹس کا راستہ کیوں دکھاتے- اپنی جوانی کی راتیں بچوں کوسنبھالنے اور ان کا کیرئیر بنانے میں لگا دیں- شمسہ کی شکائیتیں بھی جائز تھیں- حلال کمانے کی لذت میں خود مطمئن اور سرشار رہے لیکن اسے وہ پرتعیش زندگی نہ دے سکے بلکہ الٹا روک ٹوک سے اسے دلگرفتہ ہی کیا- انہیں نہیں پسند تھا کہ کسی شادی یا تقریب میں جانے کے لیے وہ اپنی بہن اور بھابی سے آرائش و زیبائش کی چیزیں مستعار لے- اپنے بچوں کو انہوں نے کھلایا اور پہنایا تو مقدور بھر مگر مہنگے کھلونے نہ کبھی دلا سکے-
نیند آنکھوں میں تھی- ذہن تھک کر سوچوں سے آزاد ہوا تو اس نے غلبہ کر لیا- آتشی رنگ کی شنیل کی رضائی اوڑھے وہ سنہرے خوابوں میں نہ جانے کہاں کہاں بھٹکتے رہے- کرسمس ٹری کو کھلونوں سے سجا رہے ہیں- اپنے بچوں کے نام رنگ برنگی پنسلوں سے کتنے سارے خط بھی لکھے- سوتے ہوئے بڑبڑانے بھی لگے- پیاری انجلینا تم نے اپنا وعدہ ایفاء نہیں کیا- مجھے اس تصویر کا انتظار ہے۔۔۔۔۔ اور پھر جیسے انہوں نے تصویر پکڑنے کے لیے اپنے ہاتھ بڑھائے لیکن وہ ان کے ہاتھوں سے چھوٹ کر گہرے پانیوں میں جا گری-

بہت دیر دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد دیوار پھاند کر ہمسائیوں کا ایک لڑکا اندر کودا اور ان کی جیب سے چابی نکال کر باہر کا دروازہ کھولا- بخار کی شدت میں کمی ہوئی تو اپنے سرہانے شمسہ اور سامنے بچوں کو دیکھ کر چونک گئے- شمسہ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اسے مزید ماتھے پر پٹیاں کرنے سے روک دیا- ابو جی ہم نے آپ کو سرپرائز دینا تھا مگر آپ نے تو ہم سب کی جان ہی نکال دی- گذشتہ گزرے وقت کی نسبت بچے ان سے بلا جھجک بات کر رہے تھے- انہیں مسکراتا دیکھ کر سب باری باری ان سے گلے ملے- کل تک گھر میں وحشت بھری تنہائی تھی اور اب اپنوں کی خوشبو سے گلاب کھل اٹھے تھے- انہوں نے نہ جانے کیوں شمسہ اور بچوں کے چہروں پر شرمساری اور ندامت محسوس کی- پوتے، نواسے اور نواسی پورے گھر میں اودھم مچاتے پھر رہے تھے- سورج نکل آیا تھا اور چمکتی دھوپ کے پیچھے لپکتے وہ چھت پر بھاگ گئے تھے- آج ان کے کانوں کو بچوں کا شور بھلا لگ رہا تھا- آپ کے لیے ایک سرپرائز بھی ہے- شمسہ نے تنہائی ملتے ہی سفری بیگ میں سے ایک فریم شدہ تصویر نکالی- "آپ نے لاکھ چھپایا لیکن قدرت نے آپ کا معاشقہ ہم پر ظاہر کر ہی دیا-" اپنی عادت کے مطابق وہ لاحولاولاقوۃ کہہ کر اٹھ بیٹھے- 
وہاں امریکہ میں ایک ریستوران میں یاسر کو دیکھ کر ایک عورت ٹھٹھک گئی اور آپ کا نام لینے لگی-"
"انجیلنا ہو گی-"
وہ زیرلب بڑبڑائے- ان کا بیٹا یاسر ہو بہو ان کی جوانی کی تصویر تھا- یونیورسٹی میں ہی انجلینا اپنے کزن میکائیل کے ساتھ شادی کر کے امریکہ چلی گئی تھی- 
"ہاں جی اور پھر اس نے بہت عزت سے آپ کا ذکر کیا کہ پوری یونیورسٹی میں آپ وہ واحد انسان تھے جنھوں نے اسے دوستی نہیں شادی کی پیشکش کی تھی- وہاں اس کی اپنی گیلری ہے اور اس کا شوہر پیانوئسٹ ہے- سچ پوچھیں تو اس سے ملنے کے بعد میرا وہاں ایک پل کو جی نہیں لگا- وہ مجھ پر رشک کر رہی تھی کہ تمہارا شوہر سانتا کلاز ہے جس نے تم سب کو دنیا کی گرد سے بچا کر شفاف آئینوں میں رکھا"-
"وہ بوڑھی ہو گئی ہو گی مگر آواز تو ویسی ہی ہو گی"- 
ان کو اپنی آواز جیسے ایک یاد کا پتھر گرنے سے پانیوں کے گول دائروں میں گردش کرتی ہوئی محسوس ہوئی- 
"نہیں۔۔۔۔ وقت اپنے احساسات کے ساتھ اگر وہیں کھڑا ہے تو جوان اور بوڑھے کا فرق کیا معنی رکھتا ہے، کیا یاد بھی کبھی بوسیدہ ہوئی ہے"؟ 
شمسہ نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں لے لیا- انہوں نے غور سے اسے دیکھا وہ بھی انہیں کبھی بوڑھی نہیں لگی تھی- 
"میں آپ کے لیے کچھ کھانے کو لاتی ہوں"-
شمسہ تصویر ان کے ہاتھوں میں تھما کر خود بچوں کے پاس باورچی خانے میں آ گئی-
انہوں نے دھڑکتے دل اور کانپتے ہاتھوں سے تصویر پر لپٹا پھولدار کاغذ اتار کر ایک طرف رکھا- فریم کے شیشے پر ان کا موجودہ عکس دھندلا اور گزری جوانی کا عکس نمایاں تھا- حیات کے اسرار کھوجتی آنکھیں اور گھنی مونچھوں کے نیچے مسکراتے لب- انہوں نے اپنی انگلیوں کی پوروں سے تصویر میں اپنے چہرے کو چھوا- انجیلنا کمال کی مصورہ تھی- ہر نقش اور تاثر مشاقی سے ابھارا تھا- ماتھے پر بنی دو شکنیں دیکھ کر ان کی پلکیں لرزنے لگیں- شمسہ نے عمر بھر شکایت کی تھی کہ خوشی کے موقع پر بھی یہ شکنیں کبھی نہ گئیں- انہوں نے تصویر اپنے ہاتھوں کی رحل پر اٹھائی اور اپنے ماتھے کی شکنوں پر پھونک مار دی-


تحریر  سارا احمد 



Click Here To Read Urdu Afsane

Click Here To Read Urdu Short Stories

Click Here To Read Urdu Short Story

Click Here To Read Sara Ahmad Afsana

Click Here To Read Sara Ahmad Poetry






Comments